مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری شجاعت حسین نے تمام سیاست دانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ بحرانوں میں گھری معیشت کو ٹریک پر لانے کے لیے میثاقِ معیشت کریں۔ ان کی یہ تجویز وقت کی اہم ضرورت اور قومی تقاضا ہے۔ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی اور سود کے لیے امسال 27 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ اسی طرح دیگر درآمدات کو چھوڑ کر صرف آئل امپورٹس کے لیے تقریباً 24 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا ہو گی جبکہ ہمارے زر مبادلہ ذخائر صرف 8.1 ارب ڈالر کے ہیں۔ اس میں سے بھی 5 ارب ڈالر بینکوں کے جبکہ حکومت کے پاس صرف 3 ارب ڈالر کی قلیل رقم ہے جو ایک سے 2 ماہ کی ضروریات کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔
مانا کہ حالات مشکل ہیں لیکن ہاتھ پر ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھا جا سکتا۔ دن رات محنت اور اندرونی آمدن بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ سیاست دانوں نے ہمیشہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور ملکی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے رہے جس کے باعث ہر شعبہ افرادی قوت کے افراط کا شکار ہے۔ جہاں ایک فرد سے کام چل سکتا ہے وہاں 10 کو گھسایا گیا ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ سونے کی چڑیا اور ملک کو اربوں روپے کا منافع دینے والے ادارے خسارے میں چلے گئے۔ ملکی معیشت پر بوجھ بڑھا جسے اتار پھینکنے کی بجائے سالہا سال سے برداشت کیا جا رہا ہے جو اب ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلامتی کے تقاضے کے تحت معیشت کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے؟ قرضوں کا بوجھ اتر پائے گا؟ کیا ایف بی آر ٹیکس کلیکشن بڑھا سکتا ہے یا اس میں اصلاحات ضروری ہیں؟ لوگ ٹیکس دینے سے کیوں گریزاں ہیں؟ اندرونی آمدن بڑھ پائے گی؟ اوورسیز پاکستانی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ زرعی برآمدات حصہ ڈال سکتی ہیں؟
میرے مطابق بے شک قومی ادارے خسارے کا شکار ہیں، 27 ارب ڈالر قرضوں کی واپسی اور 24 ارب ڈالر آئل امپورٹس کمزور معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ ہیں، پھر بھی ملک میں آگے بڑھنے کا بھرپور پوٹینشل ہے۔ صرف ریکوڈک 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا پراجیکٹ ہے۔ اربوں ڈالر کے کوئلے کے ذخائر اور کھربوں ڈالر کےمعدنی وسائل کے ہم مالک ہیں۔ لیکن افسوس ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔
حکومت کے پاس تکنیکی استعداد کی کمی ہے جسے بڑھا کر قدرت کے ان خزانوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کیے جائیں۔ اندرونی آمدن بڑھانے کے لیے ایف بی آر میں اصلاحات اور 2000 ارب تک ٹیکس کلیکشن بڑھائی جائے۔ ریٹیلرز اربوں روپے منافع کماتے ہیں لیکن ٹیکس نہیں دیتے۔ حکومت انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات کرے اور ان سے فکس ٹیکس چارج کیا جائے۔
قومی خزانے پر بوجھ اداروں کی فوری نجکاری کی جائے اور اس سلسلے میں کوئی دباؤ خاطر میں نہ لایا جائے۔ اوورسیز پاکستانی ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں، انہیں ملک میں سرمایہ کاری پر آمادہ اور ترسیلات زر کو بڑھانے کی ترغیب دی جائے۔ ہمارے پاس نوجوانوں کی صورت افرادی قوت کا بہت بڑا خزانہ موجود ہے۔ حکومت فوری طور پر 10 لاکھ افراد کو اسلامی دنیا میں کھپانے کے معاہدے کرے۔ اس سے ترسیلات زر میں اضافہ ہو گا اور زر مبادلہ کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔
درآمدات قرضوں میں جکڑی معیشت پر اضافی بوجھ ہیں، اس لیے فوری طور پر لگژری آئٹمز پر پابندی لگائی جائے۔ ملک کی 90 لاکھ ایکڑ زرعی زمینیں بنجر پڑی ہیں، انہیں آباد کیا جائے اور فالتو اجناس برآمد کر کہ ملکی آمدنی بڑھائی جائے۔ فوج نے اس بارے ایک پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے اور 40 ہزار ایکڑ بنجر زمین کو آباد کرنے پر کام جاری ہے۔ دوست ملکوں کے تعاون سے اس پروجیکٹ پر کام کی رفتار کو دگنا کیا جائے۔
معیشت بھی قومی سلامتی کا تقاضا ہے اس لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اسے ٹریک پر لانے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ بزرگ سیاستدان شجاعت حسین کی میثاقِ معیشت کی تجویز بروقت اور قومی تقاضا ہے، اس لیے فوری طور پر اس پر عمل کیا جائے اور عمران خان سمیت تمام سیاسی قوتوں کو آن بورڈ کر کہ اس پر کام شروع کیا جائے۔
پہلے ہی اس بارے کافی تاخیر ہو چکی اب لمحہ ضائع کیے بغیر اس پر عمل کی ضرورت ہے ۔کوتاہی کی تو قوم معاف نہیں کرے گی۔