وہ ایک بڑے صحافی تھے،خوبصورت نثر نگار اور بہت خوبصورت شاعر بھی۔ انہوں نے ایک عام سے گھر میں آنکھ کھولی جیسے ہمارے سماج میں سبھی کے گھر ہوتے ہیں۔ مگر جب رخصت ہوئے تووہ کوئی عام آدمی نہیں تھے۔ وہ نذیرناجی تھے جو ایک طویل عرصے تک صحافت کا برانڈ بنے رہے۔ ان کے سیکڑوں شاگرد آج بھی صحافت کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں۔ ہرسیلف میڈ کی طرح انہوں نے بھی انتھک محنت کی اور اس معاشرے میں اپنا وہ مقام بنایا جوکوئی عام آدمی مشکل سے ہی بناپاتا ہے۔
اکیس فروری، 2024ء کو جب ان کے انتقال کی خبرسامنے آئی تو میری نظروں کے سامنے ان کی شخصیت سے وابستہ بہت سے واقعات اور بہت سی کہانیاں گھوم گئیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے آپ کوان کاایک شعر اور ایک نظم سناتا ہوں تاکہ آپ جان سکیں کہ وہ صحافی ہی نہیں شاعر بھی بہت بڑے تھے۔
اب میں ہوں مری جاگتی راتیں ہیں خدا ہے
یا ٹوٹتے پتوں کے بکھرنے کی صدا ہے
اب اُن کی نظم دیکھیے۔۔
ہوا چلی ہوا چلی
گھنے طویل جنگلوں کو نیند سے جگا چلی
ادائے خامشی کو گدگدا چلی
خزاں کی زرد سیج سے کسی کی یاد
آنکھیں ملتی اٹھ کھڑی
چراغِ درد لے کے سرد ہاتھ پر
بھٹک کے پات پات پر
تھکی تھکی سے روشنی لٹا چلی
میں اجنبی ہوں جس کے سر پہ دھوپ کا کڑا سرا
گرا ہوں راہ بھول کر
گئے زمانے کے مہیب کنڈ میں
پھنسا پڑا ہوں پنچھیوں پشوؤں کے پیاسے جھنڈ میں
یہ بے بسی تو کھا چلی
بساطِ دل پہ نقش شکست دم بچھا چلی
مگر وہ مند مند مسکراتی موت
بھر کے جام زندگی
مجھے نہ اب پلائے گی
کہ آج اس کی یاد بھی
چہار سمت دوریوں کی تیرگی سجا چلی
ہر اک نشاں مٹا چلی
ہوا چلی
یہ خوبصورت شاعری نذیر ناجی صاحب ہی کی ہے۔ لیکن ان کے اندر کے شاعر کوتو ان کی صحافت کھا گئی۔ اور ایسا صرف ان کے ساتھ ہی نہیں ہوا۔ ہمیں ایسی مثال حسن نثار اور عباس اطہر صاحب کی بھی ملتی ہے۔ ماہنامہ فنون، ادب لطیف، ادبی دنیا اور نقوش کے پرانے شماروں میں آپ کو یہ تینوں شعراء بہت اہتمام کے ساتھ اور بہت اہم مقام پر شائع ہوتے ہوئے نظرآئیں گے۔
ناجی صاحب کی صحافت کاایک زمانہ معترف ہے۔ ان کی وفات کے بعد شائع ہونے والی خبروں میں ان کی صحافت کا ذکرتوموجود ہے لیکن ان کا ادبی حوالہ پس منظر میں چلا گیا۔ وہ 3 اپریل 1997 سے 22 اکتوبر 1999 تک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ان کی چیئرمین شپ کے دوران شاید 1997 میں کل پاکستان اہل قلم کانفرنس بھی منعقد ہوئی تھی جس میں شرکت کے لیے ہم اظہر سلیم مجوکہ کے ہمراہ اسلام آباد گئے تھے۔ اس کانفرنس میں ناجی صاحب نے ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لئے بہت سے اقدامات کا اعلان کیا تھا جن میں وظائف کے علاوہ ادیبوں کی لائف انشورنس کا اجراء اور کمال فن ایوارڈ سمیت مختلف قومی زبانوں کے قلم کاروں کے لیے اعزازات کااعلان بھی شامل تھا۔ مجھے یاد ہے ہم نے بعد ازاں انہیں چند قلم کاروں کی مالی مشکلات سے آگاہ کیا توان کی جانب سے فوری طورپر ہمیں جواب موصول ہوا اورانہوں نے ان قلم کاروں کی مشکلات بھی کم کیں۔
ناجی صاحب15 اگست 1937 کو پیدا ہوئے۔ نذیر ناجی، علی اکبر عباس اور علی اصغر عباس تینوں بھائی محبت کی سرزمین جھنگ سے تعلق رکھتے تھے۔ علی اصغر اور علی اکبر عباس کے ساتھ ہمارا 1985 سے محبت بھرا رشتہ ہے۔ یہ دونوں بھائی ہماری دعوت پر ملتان بھی آئے ان کی کتابوں کی تقریبات بھی ملتان میں منعقد ہوئیں۔ یوں ان دونوں کا ملتان سے ایک مضبوط ادبی تعلق قائم ہے۔ لیکن ناجی صاحب کا ملتان کے ساتھ ایک اور مضبوط رشتہ قائم ہوا۔ آیئے آپ کو اس کا احوال سناتے ہیں۔
یہ بات ہے 1999ء کی،ان دنوں ناجی صاحب وزیراعظم نوازشریف کے تقریر نویس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ 12اکتوبر وہ دن تھا جب نوازشریف شجاع آباد میں جلسہ عام سے خطاب کے لیے اپنے خصوصی طیارے پرملتان آئے۔ ملتان ایئرپورٹ سے نوازشریف خود تو بذریعہ ہیلی کاپٹر شجاع آباد روانہ ہوگئے لیکن نذیر ناجی کو یہ ہدایات دے گئے کہ آپ اسی طیارے میں بیٹھ کر جنرل پرویز مشرف کی برطرفی سے متعلق میرا قوم سے خطاب تحریر کریں جو میں آج شام اسلام آباد پہنچ کر کروں گا۔ ناجی صاحب نے ملتان ایئرپورٹ پر وزیراعظم کے طیارے میں بیٹھ کر وہ تقریر لکھی جو بعدازاں نشرنہ ہوسکی۔
شجاع آباد کے جلسے میں نوازشریف کے کان میں ان کے سیکرٹری نے آ کر کوئی بات کی جس کے بعدوہ عجلت میں تقریر ختم کرکے اسلام آباد روانہ ہوگئے اور پھر جب وہ اسلام آباد پہنچے تو فوجی دستے وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوگئے۔ نوازشریف کے ہمراہ وزیراعظم ہاؤس سے نذیر ناجی صاحب کوبھی گرفتار کرلیاگیا۔ ان کے ساتھ طویل پوچھ گچھ ہوئی۔ وہ کئی روز فوج کی حراست میں رہے اور بعدازاں انہیں معافی مل گئی۔
ناجی صاحب اول وآخر صحافی تھے۔ انہوں نے ہفت روزہ “شہاب” کے ذریعے بھی چونکا دینے والی صحافت کی اور بعدازاں کالم نگار کی حیثیت سے بھی ایک طویل عرصے تک اپنا نقطہ نظر بیان کرتے رہے۔ “سویرے سویرے”کے عنوان سے ان کا کالم کم وبیش ستائیس برس تک روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ یہی کالم اس سے پہلے روزنامہ نوائے وقت کی زینت بنتارہا۔ بے نظیر بھٹو کے دورحکومت میں انہوں نے ان کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ آصف زرداری کے خلاف بھی ان کے تندوتیز کالم تاریخ کاحصہ ہیں۔ صحافت میں ناجی صاحب کاآخری مسکن روزنامہ دنیا تھا۔ وہ 2012ء میں گروپ ایڈیٹر کے طورپر روزنامہ دنیا سے منسلک ہوئے اور اپنی پیشہ ورانہ مہارتوں کے بھرپوراستعمال کے ذریعے اسے ایک ایسا اخباربنایا جو آج بھی پاکستان کے چھے مختلف شہروں سے شائع ہورہاہے۔ ان کی زندگی کی آخری تصویر 17دسمبر 2023ء کو نامور شاعر شعیب بن عزیز نے شائع کی تھی جس میں وہ اپنے بیٹے سرمد ناجی اور شعیب صاحب کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ لاہورجم خانہ کی اس تصویر کے ساتھ شعیب بن عزیز نے جو تحریر شائع کی اس سے معلوم ہوا کہ ناجی صاحب اپنی یادداشت کھوبیٹھے ہیں۔ وہ جانے کتنے عرصے سے اس کیفیت میں تھے اس کا توہمیں علم نہیں۔
ناجی صاحب ملا ملٹری الائنس کے ہمیشہ سے شدید ناقد رہے۔ وہ ملکی معاملات میں فوج کی مداخلت پربھی کڑی تنقید کرتے تھے۔ جماعت اسلامی کو وہ ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیتے تھے اور سقوط ڈھاکہ میں جماعت اسلامی کے کردار کو ہدف تنقید بناتے تھے۔ عجب اتفاق ہے کہ ناجی صاحب نے اپنی رخصتی کے لیے بھی اس دن کاانتخاب کیا جسے قومی زبانوں کے عالمی دن کے طورپر دنیا بھر میں منایاجاتاہے اوراس لیے منایاجاتا ہے کہ ہمارے طاقتور لوگوں نے اس روز مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی زبان بندی کی تھی۔