جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا حصہ نہیں بنوں گا، دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہوں، سابق جج مظاہر نقوی کا خط

جمعرات 29 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا حصہ نہیں بنوں گا لیکن اپنے حق کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہوں۔ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن اس کے باوجود ان کے خلاف کارروائی کی جاری رہی ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط میں کہا کہ کارروائی میں میرے خلاف شکایت کنندگان کو پرتعیش ہائی ٹی پیش کی جاتی رہی ہے، جوڈیشل کونسل کی جانب سے مجھے دوسرا شو کاز نوٹس بھیجنا اس بات کا ثبوت تھا کہ پہلا شو کاز نوٹس غلطیوں سے بھرپور تھا۔

مظاہر نقوی نے کہا کہ دوسرے شو کاز نوٹس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ میرے خلاف لگائے گئے الزامات پر نہ تو بحث کی گئی اور نہ ہی آزادانہ ذہن کا استعمال کرتے ہوئے درست جائزہ لیا گیا، سابق جج اعجازالاحسن کا اختلافی نوٹ میرے مؤقف کی تائید کرتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ میرے خلاف کارروائی کے دوران کسی قسم کے بحث و مباحثے کی اجازت نہیں ہوتی۔

’جن 2 رکن ججز پر میں نے اعتراض کیا نہ تو وہ کونسل کی کارروائی سے الگ ہوئے اور نہ ہی حکم امتناع جاری کیا گیا، متعدد خطوط لکھنے کے باوجود مجھے جسٹس اعجاز الاحسن کے اختلافی نوٹ کی کاپی بھی فراہم نہ کی گئی، کونسل کے چیئرمین نے ایک اجلاس میں میرے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے خطوط کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں‘۔

انہوں نے لکھا کہ کسی عدالتی یا نیم عدالتی کارروائی کے دوران متاثرہ فریق کو ریلیف دینا سہولت دینا نہیں بلکہ فرض کی ادائیگی کے مترادف ہوتا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے تھا، 14 دسمبر کو کونسل اجلاس کے دوران رکن ججز نے میرے وکیل کو یقین دہانی کرائی کہ مجھے متعلقہ ریکارڈ فراہم کر دیا جائے، لیکن مجھے صرف جُزوی ریکارڈ فراہم کیا گیا۔

مظاہر نقوی نے لکھا کہ چیئرمین پاکستان بار کونسل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کئی شکایت کنندگان کو مستعدی سے سپروائز کرنے والے کو پراسیکیوٹر لگا دیا گیا، مجھے آج تک گواہان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں، میرے خلاف کونسل کارروائی روک کر حکومت کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف زائد المعیاد اپیل دائر کرنے کی اجازت دی گئی۔

سابق جج نے کہا کہ 15 اور 16 فروری کو عافیہ شہربانو کیس فکس ہونے سے بھی پہلے جوڈیشل کونسل نے گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے، مجھے جوڈیشل کونسل کی کارروائی بارے شدید تحفظات ہیں، میں نے 10 جنوری کو بطور جج سپریم کورٹ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا استعفیٰ منظور ہوچکا جس کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے اس کے باوجود کونسل میرے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے، میں جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا حصہ نہیں بنوں گا۔ لیکن میں اپنے حق کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp