نئی حکومت بجلی اور گیس کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کو کم کرنے سے قاصر ہے، وہ کوئی وعدہ نہیں کررہی کہ وہ اس مسئلے کو جلد حل کر لے گی۔ پیٹرول کی قیمتیں کم کرنا ان کے بس میں بالکل دکھائی نہیں دیتا اور دوسری طرف دیکھیں تو کھانے پینے کی اشیا بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
ایک طرف تاریخی مہنگائی کے پیچھے ڈالر کی اڑان، بڑھتی ہوئی پیٹرول کی قیمتیں اور نقل و حمل کے ذرائع کے بڑھتے اخراجات ہیں، تو دوسری طرف تیزی سے گرتے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے غذائی اجناس کی برآمدات میں اضافہ ہو چکا ہے، جس سے گوشت، سبزیاں، گندم اور چاول وغیرہ کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔
ریکارڈ کے مطابق غذائی اشیا کی برآمدات میں 5 ماہ کے دوران 77 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق رواں مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی میں غذائی اجناس کی برآمدات 64 فیصد بڑھ گئیں۔ جولائی تا دسمبر 2023 کے دوران غذائی اجناس کی برآمدات میں ایک ارب 50 کروڑ ڈالرز کا اضافہ ہوا، جس کے بعد یہ حجم 4 ارب ڈالرز کے قریب پہنچ چکا ہے۔
گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران غذائی اجناس کی برآمدات 2 ارب 34 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز تھیں، جولائی تا دسمبر 2023 مکئی کی برآمدات 208 فیصد اضافے سے 26 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہوگئیں، ایتھائل الکوحل کی برآمدات 497 فیصد اضافے سے 25 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز رہیں۔
چاول کی برآمدات 96 فیصد اضافے سے ایک ارب 64 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز رہیں، گوشت کی برآمدات 23 فیصد اضافےکے بعد 23 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ہوگئیں۔اسی طرح جولائی تا دسمبر کے دوران پھلوں اورسبزیوں کی برآمدات 15فیصد اضافے سے 28 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، جبکہ مصالحہ جات اور بیکری مصنوعات کی برآمدات بالترتیب 10، ایک فیصد بڑھیں۔
مزید پڑھیں
حال ہی میں پاکستان میں پیاز کی قیمتیں تاریخ میں پہلی مرتبہ 300 روپے فی کلو سے اوپر چلی گئیں، جس کی بنیادی وجہ پیاز کی برآمد تھی۔ بھارت میں الیکشن سال کی وجہ سے پیاز کی برآمد روک دی گئی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو پیاز کے آرڈرز زیادہ موصول ہوئے اور پاکستان نے مقامی پیدوار برآمد کرکے ایران اور دیگر ملکوں سے سستا پیاز خرید کر مقامی مارکیٹ میں سپلائی کردیا جس کی قیمت تو نسبتاؑ کم تھی مگر کوالٹی بالکل اچھی نہیں تھی۔ عوام کو مجبوراً درآمد شدہ پیاز پر گذارہ کرنا پڑا۔
نئی حکومت کے لیے مہنگائی سب سے بڑا چیلنج ہو گا جس پر قابو پانا شاید اس کے بس میں نہ ہو۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ عوام کو نئی حکومت سے کسی قسم کے ریلیف کی کوئی امید نہیں۔ حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کر بھی لے تو نومبر 2024 تک پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کی مد میں 27 ارب ڈالر سے زائد کی رقم ادا کرنا ہوگی، جو نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے جس سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکتا۔
ان قرضوں کی ادائیگی کا سارا بوجھ عوام ہی کو برداشت کرنا ہوگا۔ حکومت کی کوشش ہے ہے کہ پی آئی اے سمیت نقصان میں جانے والے اداروں کی نجکاری کرکے کچھ بوجھ ہلکا کیا جائے، مگر یہ سب اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔
اگرچہ نگران حکومت بڑے بڑے دعوے کرتی رہی کہ چین سمیت مختلف ملکوں سے اربوں ڈالر کے معاہدے طے پا رہے ہیں مگر عملی طور ان میں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی۔
نئی حکومت اور اگلے 15 سال میں آنے والی تمام حکومتوں کو ایک میثاق معیشت پر متفق ہونا ہوگا اور سیاسی استحکام کی طرف قدم بڑھانا ہو گا جس کے بغیر معاشی صورتحال میں بہتری کسی صورت ممکن نہیں۔