جنگلی حیات کے عالمی دن کے موقع پر آزاد کشمیر کے محکمہ جنگلی حیات نے معدومیت کے خطرے سے دو چار 2 اژدھوں کو بچاتے ہوئے انہیں آبادی سے دور محفوظ مسکن میں چھوڑ دیا۔
آزاد کشمیر جنوبی ضلع کوٹلی کے ایک گاؤں گلپور سے محکمہ جنگلی حیات و ماہی گیری کے عملے کو اطلاع موصول ہوئی کہ آبادی کے قریب 2 اژدھے دیکھے گئے ہیں، یہ اطلاع ایک ایسے وقت ملی جب جنگلی حیات کے عالمی دن کے موقع پر اس علاقے میں قائم مہاشیر فش ہیچری گلپور میں متعلقہ عملہ موجود تھا۔
مزید پڑھیں
محکمہ جنگلی حیات کا عملہ فوراً ایکشن لیتے ہوئے موقع پر پہنچا جہاں مقامی افراد بھی موقع پر پہنچ گئے، محکمہ جنگی حیات کے ڈائریکٹر نعیم افتخار ڈار کے مطابق زولوجی میں ’انڈین راک پائیتھن‘ کے نام سے شمار کیئے گئے ان اژدھوں کو عملے نے بحفاظت ریسکیو کرتے ہوئے انہیں اانہیں آبادی سے دور محفوظ مسکن میں چھوڑدیا۔
اس موقع پر وائلڈ لائف اسٹاف نے مقامی کمیونٹی کو جنگلی حیات کی اہمیت و افادیت کے بارے میں موثر آگاہی دیتے ہوئے بتایا کہ اژدھا سانپ کی ایک غیر زہریلی نسل ہے، جو عام طور پر انسانوں کے لیے خطرناک نہیں، لیکن اگر ان سے چھیڑ چھاڑ کی جائے تو یہ اپنے دفاع میں کاٹ بھی لیتے ہیں۔
جنگلی حیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ان اژدھوں کو مارنا نہیں چاہیے کیونکہ پاکستان میں ان کی تعداد پہلے ہی بہت کم ہے، اگرچہ ان کا کاٹا جان لیوا نہیں ہوتا، لیکن یہ کافی زور سے کاٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ابھی تک کسی انسان پر حملے کا کوئ کیس سامنے نہیں آیا۔
اژدھوں کے ضمن میں آزاد کشمیر میں اب تک کوئی جامع مطالعہ نہیں کیا گیا ہے، تاہم بھمبھر میں واقع دیوا بٹالہ نیشنل پارک میں 2009 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اس نیشنل پارک میں 27 اژدھے ہیں، 2005 سے 2009 تک وہاں کے محکمہ جنگلی حیات کے عملے اور مقامی لوگوں نے 76 جگہوں پر یہ اژدھے دیکھے تھے۔
اس تحقیقی مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2005 سے 2009 تک مال مویشیوں پر 91 حملے کیے گئے، جس میں 74 جانور مارے گئے تھے جن میں بھیڑ بکریوں سمیت پولٹری وغیرہ شامل تھیں، جبکہ ان حملوں میں 17 جانور بھی زخمی ہوئے تھے۔
وہاں ہلاک ہونیوالے 92 فیصد اژدھے لوگوں نے مارے ہیں کیونکہ لوگ ان کو اپنے دشمن کے طور پر دیکھتے تھے کیونکہ یہ لوگوں کے مال مویشیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات کے سربراہ نعیم ڈار کے مطابق اس قسم کے اژدھےکوٹلی، میر پور اور بھمبھر کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں، یہ اپنی خوراک کے لیے چھوٹے جانوروں کا شکار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ انہیں دشمن سمجھتے ہیں اور مارنے سے گریز نہیں کرتے۔
’اس کے علاوہ اس کی جلد بھی قیمتی ہے جس کا صنعتی استعمال اس کے عالمی مارکیٹ میں اچھی قیمت کی ضمانت بن جاتا ہے، عام طور پر یہ موسم گرما یعنی جون سے اگست کی سہ ماہی میں زمین سے باہر نکلتے ہیں۔‘
محکمہ جنگلی حیات و آب پاشی کے میر پور رینج آفیسر طارق نے بتایا کہ گزشتہ برس بھی مقامی لوگوں کے تعاون سے تقریباً 5 سے زائد مرتبہ اس نسل کے اژدھوں کو ریسکیو کر کے آبادی سے دور جنگل میں چھوڑا گیا تھا۔ ’معدومیت کے خطرے سے دوچار یہ اژدھوں کی نسل ہمارے قدرتی ماحول کا حصہ ہے۔‘