رانیا کی داستان غم، اللہ نے 11 سال بعد جڑواں بچے عطا کیے، اسرائیل نے دونوں چھین لیے

پیر 4 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غزہ میں اس وقت جہاں ہر گھر غم، کرب اور درد کی ایک داستان لیے ہوئے ہے وہاں رانیا عنزہ پر تو قیامت ہی ٹوٹ پڑی، رانیا عنزہ کو اللہ نے 11 سال کے صبر آزما انتظار کے بعد جڑواں بیٹے اور بیٹی کی نعمت سے نوازا لیکن اسرائیلی فوج نے محض 4 ماہ بعد ہی اسے شوہر سمیت اس نعمت سے محروم کر دیا۔

غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں سر ورق پر شائع ہونے والی خبروں کے مطابق غزہ جنگ کے چند ہی ہفتے بعد پیدا ہونے والے جڑواں بچوں ویسام اور نعیم ابو عنزہ کو ماں کی درد ناک آہوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا ہے، جو شہید ہونے والے ایک ہی خاندان کے 14 افراد میں سب سے چھوٹے شیر خوار بچے تھے۔

اسرائیلی افواج کی رہائشی اپارٹمنٹ پر بمباری سے رانیا نا صرف اپنے جگر گوشوں سے محروم ہو گئی بلکہ وہ اپنے خاوند اور بہن، بھائیوں سمیت خاندان کے 14 افراد سے بھی محروم ہو گئی۔ رانیا نے کہا کہ وہ کس، کس کا غم منائے؟

ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی دل دلا دینے والی تصاویر میں رانیا ابو عنزہ اپنے جڑواں بچوں کو کبھی سینے لگاتی ہےتو کبھی اپنے گالوں پہ سلاتی ہے۔

رانیا کی ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ کہتے ہوئے سنی جا رہی ہیں کہ ’ میرا دل جل گیا ہے ‘ ، میں اب کیسے زندہ رہوں گی؟، میرے بچوں کو میرے پاس رہنے دو، وہ کبھی پچوں کے ماتھے چومتی ہے، کبھی انہیں سینے سے لگاتی ہے، تو کبھی وہ غم سے نڈھال بے قرار ہو کر ان سے باتیں کرتی ہے۔

سوگوار اسے تسلی دیتے ہیں۔ تدفین سے پہلے جب اس کے ایک بچے کی لاش چھوڑنے کے لیےکہا گیا تو اس نے مزاحمت کی اور کہا ’ اسے میرے پاس رہنے دو‘۔

رانیا عنزہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے شادی کے بعد 11 سال تک اولاد کے لیے دعائیں کیں، 11 سال بعد انہیں اللہ نے جڑواں اولاد سے نوازا اور آج ہم اس نعمت سے پھر محروم ہو گئے۔

وہ کہتی ہیں’ ہم سو رہے تھے، ہم کسی پر کوئی گولی نہیں چلا رہے تھے اور ہم لڑ نہیں رہے تھے۔ وہ اپنے بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں ان بچوں کا کیا قصور ہے؟ ان کا کیا قصور ہے؟۔ ہم اب کیسے زندہ رہیں گے؟۔

رانیا عنزہ کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش تقریباً 4 ماہ قبل ہوئی تھی، جو 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ کے تقریباً ایک ماہ بعد پیدا ہوئے تھے۔

 رانیا عنزہ کو اولاد کی نعمت ملنے  میں 11 سال لگے، قدرت نے بیٹا اور بیٹی دونوں 11 سال بعد عطا کیے لیکن انہیں واپس کھونے میں صرف چند سیکنڈ لگے۔

فلسطینی محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ کے جنوبی شہر رفح میں اسرائیلی حملے میں رانیا عنزہ کے اہل خانہ کے گھر کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ان کے بچے، ان کے شوہر اور 11 دیگر رشتہ دار موقع پر ہی شہید ہو گئے جب کہ دیگر 9 افراد ابھی تک یہاں ملبے تلے دب کر لاپتہ ہیں۔

رانیا عنزہ نے بتایا کہ اس نے رات کے تقریباً 10 بجے اپنے بیٹے نعیم کو دودھ پلایا اور پھر وہ اپنی بیٹی ویسام کے ساتھ سو گئی، اس کے  شوہر بھی ان کے بغل میں سو رہے تھے۔ ان کے گھر پر ڈیڑھ گھنٹے بعد بمباری ہوئی جس سے گھر منہدم ہو گیا۔

’ رانیا عنزہ نے اپنے ایک بچے کا کمبل سینے سے لگاتے ہوئے کہا کہ میں اپنے بچوں اور اپنے شوہر کے لیے چیخ رہی تھی لیکن وہ سب شہید ہو چکے تھے۔ پھر رانیا عنزہ نے  اپنا سر جھکایا، بہتے آنسوؤں کے ساتھ آنکھیں بند کیں اور اپنے پاس رکھی ہوئی بچوں کی لاشوں کو پر سکون اشارے کے ساتھ تھپتھپاتے ہوئے بولیں، آخر جس نے عطا کیے اسے انہیں واپس کرنے کا موقع مل گیا۔

غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے سول آبادی پر اسرائیلی فضائی حملے باقاعدگی سے جاری ہیں جن میں عام گھروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ رفح میں بھی جسے اسرائیل نے خود اکتوبر میں ایک محفوظ علاقہ قرار دیا تھا وہاں بھی اسرائیلی بمباری جاری ہے۔

اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مروان الحمس نے بتایا کہ رانیا اور ابو عنزہ کے گھر میں شہید ہونے والے 14 افراد میں سے 6 بچے اور 4 خواتین تھیں۔ اپنے شوہر اور بچوں کے علاوہ، رانیا عنزہ نے ایک بہن، ایک بھتیجا، ایک حاملہ کزن اور دیگر رشتہ داروں کو بھی کھو دیا۔

ایک رشتہ دار فاروق ابو عنزہ نے بتایا کہ اس گھر میں تقریباً 35 افراد رہ رہے تھے، جن میں سے کچھ دوسرے علاقوں سے بے گھر ہو کر یہاں پہنچے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام شہری تھے جن میں زیادہ تر بچے تھے اور ان میں کوئی مجاہد یا ہتھیار اٹھانے والا نہیں تھا۔

رانیا اور ان کے شوہر، 29 سالہ ویسام نے اولاد کے حصول کے لیے کوششوں میں ایک دہائی گزاری۔ جڑواں بچوں کی پیدائش 13 اکتوبر کو ہوئی تھی۔ رانیا نے کہا کہ ان کے شوہر جو دن میں مزدوری کرتے تھے، اتنا فخر محسوس کرتے تھے کہ انہوں نے لڑکی کا نام اپنے نام پر رکھنے پر اصرار کیا۔

واضح رہے کہ اسرائیل نے حالیہ تاریخ کی سب سے مہلک اور تباہ کن فضائی بمباری کی ہے، جس کے بارے میں غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں اب تک 30 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ کی 2.3 ملین آبادی میں سے تقریباً 80 فیصد اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں اور ایک چوتھائی آبادی کو بھوک کا سامنا ہے۔

وزارت نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ جنگ میں 12,300 سے زیادہ فلسطینی بچے اور نوجوان شہید ہوئے ہیں، جو مجموعی شہادتوں کا تقریباً 43 فیصد ہے۔ شہید ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد 3 چوتھائی ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کے 10 ہزار سے زیادہ جنگجوؤں کو شہید کیا ہے لیکن اس نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ زندہ بچ جانے والے بچوں کے لیے جنگ نے زندگی جہنم بنا دی ہے اور شمالی غزہ میں کچھ بچے دیکھ بھال کے لیے پہنچ سے ہی باہر ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp