غزہ میں پہلا روزہ کیسے گزرا؟

پیر 11 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

رمضان مسلمانوں کے لیے سب سے مقدس مہینہ ہے، جس میں ہر مسلمان اپنا گھر سجاتا ہے، رمضان کے لیے خصوصی پکوانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، رزق میں کشادگی، گھروں میں تلاوت، مساجد میں تراویح کی پر سوز صدائیں بلند ہوتی ہیں، ہر خاندان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے ساتھ سحر و افطار کی پر رُونق محافل سجائے۔

لیکن دُنیا کا ایک حصہ فلسطین ایسا بھی ہے جہاں قرآن کی تلاوت کے لیے کوئی گھر رہا نہ تراویح کی محافل سجانے کے لیے  مساجد باقی رہیں، نہ ہی خاندان باقی رہے، نہ ہی سحر و افطار کی پر رونق محافل سجانے والے یار دوست اور رشتہ دار باقی رہے۔

اسرائیلی حملوں، گنوں کی گن گرج، گولہ باری اور فائرنگ کے خوف کے باوجود فلسطینیوں نے رمضان المبارک کی آمد کی خوشی منانے کی کوششیں تو کیں، لیکن ہر چہرہ درد اور کرب سے دوچار، ہر آنکھ اشکبار ہے۔ گزشتہ رمضان کی خوشیاں سمیٹنے والا ہر ایک خاندان اپنے پیاروں کو اسرائیلی بمباری میں کھو چکا ہے۔

غزہ کے دیر البلاح مارکیٹ میں38  سالہ عطیہ حرب نے اپنے بازار کے اسٹال پر رمضان کی کچھ سجاوٹ کر رکھی  تھی اور وہ تہوار کی دھنیں بھی بجا رہے تھے اور کسمپرسی کے باوجود گاہکوں کو راغب کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔

عطیہ حرب  شمالی غزہ کے شیخ ریڈوان سے اپنے خاندان کے 11 افراد کے ساتھ بے گھر کردیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا، ’اس سال کا رمضان بالکل مختلف ہے‘۔ بموں اور ایمبولینسوں کا مسلسل شور ہے اور ہم نے پہلا روزہ اسی اذیت ناک شور اور کرب میں گزارا۔

انہوں نے کہا کہ آج، زیادہ تر لوگ پناہ گاہوں، عارضی خیموں اور گلیوں میں سڑک پر بسیرا کر رہے ہیں، ان سب نے اپنے خوشحال گھرانے کھو دیے ہیں۔ انہوں نے اپنا پہلا روزہ بھی عارضی پناہ گناہوں میں گزرا۔

45 سالہ جابر مشتہ غزہ شہر کا ایک مشہور مٹھائی سازہوا کرتے تھے۔ اب وہ اپنا سامان گلیوں میں بیچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں غزہ میں میری مٹھائی کی دکان ہر سال رمضان میں گاہکوں کے ساتھ بھری ہوئی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب، یہ سب بہت مختلف ہے۔ اسرائیلی فوجوں نے میری دکان پر بمباری کر کے اسے تباہ کر دیا، میرے گھر کو برباد کر دیا اوراب میں ایک افسردہ بے گھر شخص ہوں۔

غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں واقع اپنے گھر سے نکلنے پر مجبور کیے جانے کے چند روز بعد حنا المصری، ان کے شوہر اور ان کے 6 بچے اپنے نئے گھر یعنی خستہ حال خیمے میں رمضان گزارنے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سال یہاں باغ میں لیموں اور سنگترے کے درختوں کے نیچے کوئی سجاوٹ نہیں ہوئی، کوئی خوشگوار خاندانی کھانا نہیں بنا اور نہ ہی قرآن کی تلاوت کی آوازیں کہیں سے سنائی دے رہی ہیں۔

37 سالہ حنا المصری کا کہنا تھا کہ میری بیٹیاں رمضان کی سجاوٹ خریدنے کے لیے احتیاط سے پیسے بچایا کرتی تھیں اور ہر سال رمضان کی نئی لالٹینوں کا انتخاب کیا کرتی تھیں لیکن اب روشنیاں تو دور زندگیوں میں ہی اندھیرا چھا گیا ہے۔

حنا المصری کا کہنا تھا کہ مجھے پنیر، جام، پھلیاں اور انڈوں کا کھانا تیار کرنا بہت پسند تھا تاکہ پورے رمضان  میں اپنے اہل خانہ کو سحر و افطار کروا سکوں اور پھر افطار کے لیے کچھ لذیذ بھی بنا سکوں۔

لیکن اب رفح میں ہر جانب موت رقص کر رہی ہے، لذیذ پکوان تو دور کی بات کھانے کو روٹی بھی میسر نہیں ہو گی۔ روزہ ہی روزہ ہے کیوں کہ مقامی صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ بھوک سے اب تک 20 اموات ریکارڈ ہو چکی ہیں، لیکن بنیادی اشیا کی فراہمی اب بھی کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اکیلی نہیں ہوں جو رمضان المبارک میں اپنے رسم و رواج کو برقرار رکھنے کی خواہش رکھتی ہو۔ میں اور میرے پڑوسی اپنی گلیوں کو روشنیوں اور لالٹینوں سے سجایا کرتے تھے، لیکن اب ہمارے آس پاس سب کچھ تاریک ہے۔ المصری نے کہا کہ سڑکوں پر اسرائیلی بمباری کے زخم موجود ہیں اور کمیونٹی سوگ میں ہے۔

10 لاکھ سے زیادہ بے گھر افراد بھی اسرائیلی فوجی حملوں کے امکانات سے گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھے اپنی قسمت کا انتظار کر رہے ہیں، سب سے مشکل بات یہ ہے کہ ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ کب تک ایسا رہے گا۔

حنا المصری کو یاد ہے کہ وہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد خان یونس میں اپنے باغ میں درختوں اور گلابوں کو پانی دیا کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے اپنے باغ میں بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنے اور خدا سے دعا کرنے میں سکون ملتا تھا۔ اب میرا باغ کھنڈرات بن گیا ہے، مکان مٹی کا ڈھیر ہے اور گلاب کی جگہ راکھ ہے۔

 ادھر یروشلم کے پرانے شہر کی تنگ گلیوں کے ارد گرد ہزاروں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں، جہاں اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک مسجد اقصیٰ کے احاطے میں روزانہ ہزاروں نمازیوں کی آمد ہو گی۔ یہ علاقہ یہودیوں کی طرف سے بھی سب سے مقدس مقام سمجھا جاتا ہے جو اسے ٹیمپل ماؤنٹ کے نام سے پکارتے ہیں۔

واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیل کی مسلسل بمباری اور حملوں نے دنیا بھر کی تشویش میں اضافہ کیا ہے کیونکہ فلسطین میں قحط کے بڑھتے ہوئے خطرے سے شہادتوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کا خطرہ ہے جو پہلے ہی 31،000 سے تجاوز کرچکی ہے۔

مسجد اقصیٰ کی نگرانی کرنے والی مذہبی تنظیم یروشلم وقف کے ڈائریکٹر جنرل عزام الخطیب کا کہنا ہے کہ یہ ہماری مسجد ہے اور ہمیں اس کا خیال رکھنا ہو گا۔ ہمیں اس مسجد میں مسلمانوں کی موجودگی کا تحفظ کرنا ہو گا جو بڑی تعداد میں پرامن اور محفوظ طریقے سے مسجد میں عبادات کے لیے داخل ہونا چاہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp