خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کے پاس فنڈز نہ ہونے سے مفت درسی کتابوں کی چھپائی کا عمل رک گیا ہے جس سے نئے تعلیمی سال کے تدریسی عمل میں تاخیر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
وی نیوز کے مطابق خیبر پختونخوا میں نئے تعلیمی سال کا آغاز اپریل سے ہو رہا ہے جبکہ صوبے میں ٹیکسٹ بک پبلشرز کو فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث ادائیگی نہ ہونے سے چھپائی کا عمل روک دیا گیا ہے۔ ٹیکسٹ بورڈ حکام نے فنڈز کی فراہمی کے لیے دوسری بار محکمہ خزانہ سے رابطہ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت صوبے بھر کے سرکاری اسکولوں کی پہلی سے 12ویں جماعت تک کے بچوں کو مفت کتابیں فراہم کرتی ہے جس کے لیے ٹیکسٹ بک بورڈ ٹینڈرز کے ذریعے چھپائی کا ٹھیکہ دیتا ہے اور ہر سال نیا تعلیمی سال شروع ہونے سے پہلے بچوں کو کتابیں دی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر سمیرا تاج ممبر کے پی ٹیکسٹ بک بورڈ نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کی کوشش ہے کہ تعلیمی سال شروع ہونے سے پہلے اسکولوں کو کتابوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ 5 کروڑ 57 لاکھ میں سے 3 کروڑ 40 لاکھ کتابوں کی چھپائی ہوگئی جو 63 فیصد بنتی ہے جبکہ 37 فیصد باقی ہے۔
عبدالولی خان بھی خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کے ممبر ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ رواں سال مفت کتابوں کا بجٹ 10 ارب 93 کروڑ روپے ہے جس میں سے اب تک صرف ایک ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔
عبدالولی خان نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت باقی فنڈز بھی جلد فراہم کردے گی۔
دوسری جانب ٹیکسٹ بک کی چھپائی سے وابستہ ایک پبلشر نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کی بار بار درخواست پر پیسے ادا نہیں کیے جارہے جبکہ ان سے بروقت چھپائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹینڈر کے مطابق 50 فیصد ادائیگی کرنی چاہیے لیکن انہیں ابھی تک 20 فیصد بھی ادائیگی نہیں ہوئی ہے۔
پبلشر کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے کاغذ کی قیمتیں بھی آسمان تک پہنچ گئی ہے جس سے انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کو صاف کہہ دیا گیا ہے کہ ٹینڈر میں کیے گیے وعدے کے مطابق رقم کی ادائیگی تک چھپائی نہیں کریں گے اور نہ ہی سپلائی کو یقینی بنائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں : ‘ڈالر کی بڑھتی قیمت کے سبب ملک میں کاغذ کا بحران سر اٹھانے لگا’
صوبے میں نیا تعلیمی سال شروع ہونے میں صرف 15 دن باقی رہ گئے ہیں جبکہ چھپائی کا عمل رک جانے سے ٹیکسٹ بک اور محکمہ تعلیم حکام کی پریشانیاں بھی بڑھ گئیں ہیں۔ ٹیکسٹ بک بورڈ نے معاملہ دوسری بار محکمہ خزانہ سے ساتھ اٹھایا ہے اور فنڈز کو جلد جاری کرنے کے لیے مراسلہ بھی لکھ دیا ہے۔ سال 2022ء میں اس معاملے کو اس وقت کے وزیرِ خزانہ تیمور جھگڑا سے اٹھایا گیا تھا لیکن یقین دہانی کے باوجود بھی فنڈز جاری نہیں ہوئے۔
ٹیکسٹ بک بورڈ کو ایک ایسے وقت میں فنڈز درکار ہیں جب صوبہ شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ گزشتہ روز محکمہ خزانہ نے تمام محکموں کو مراسلہ ارسال کرکے میٹنگ اور دیگر تقاریب میں منرل واٹر پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ غیر ضروری دیگر اخراجات بھی کم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت جانے سے پہلے ہی مالی حالات انتہائی ابتر ہوچکے تھے، جس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبوں پر کام روک دیا گیا تھا یہاں تک کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی تاخیر کا شکار ہوگئی تھیں۔ حکام کا کہنا ہے فنڈز نہ ہونے کے باعث حکومت نے سیلاب متاثرین کو بھی نقصانات کے معاوضے کی ادائیگی روک دی ہے۔
مفت کتابوں کی فراہمی کے لیے فنڈز کی عدم فراہمی کے حوالے سے موقف جاننے کے لیے نگران وزیرِ خزانہ سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے فون کالز کا جواب نہیں دیا۔