کاشانہ ویلفیئر ہوم کی سابقہ سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف ریڑھی لگانے پر مجبور

جمعرات 7 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کاشانہ ویلفیئر ہوم کی سابقہ سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف سڑک پر ریڑھی لگانے پر مجبور ہوگئی ہیں، انہیں پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا سائیٹ ایکس(سابقہ ٹویٹر) پر کاشانہ ویلفیئر ہوم کی سابقہ سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کی ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ افشاں لطیف نے اپنے کم سن بیٹے کے ہمراہ سڑک کنارے ریڑھی لگا رکھی ہے اور وہ شکرقندی فروخت کررہی ہیں۔

ایک صارف طاہر مغل نے ایکس پر ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اپنے معصوم بچوں کو فاقہ کشی سے بچانے کے لیے پنجاب پبلک سروس کمیشن میں صوبہ پنجاب میں اول پوزیشن حاصل کرنے والی عمران خان کے ظلم وجبر کی شکار ریاستی ملازم افشاں لطیف ریڑھی لگاکر اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے پر مجبور ہے۔‘

طاہر مغل نے مزید لکھا کہ ’ سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے جون 2020 میں افشاں لطیف کی تنخواہ غیر قانونی طور پر بند کروا کر یکطرفہ کارروائی کروا کر جنوری 2021 میں ان کو نوکری سے نکلوا دیا۔

انہوں نے لکھا کہ یکم نومبر 2022 کو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے افشاں لطیف کی نوکری کا کیس فیصلہ کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کو بھجوایا تھا، 2 برسوں میں متعدد انکوائریز کروائی گئیں جن میں ثابت ہوا کہ عمران خان کی حکومت کے ایما پر افشاں لطیف کو نوکری سے غیرقانونی طور پر نکالا گیا۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف واضح ثبوتوں اور شواہد کے باوجود تاحال افشاں لطیف کو نوکری پر بحال نہیں کیا گیا۔

یہ ویڈیو ایکس پر وائرل ہوگئی، اب تک 86000 ایکس صارف اس ویڈیو کو دیکھ چکے ہیں اور ہزاروں صارفین نے اسے دوبارہ شیئر کیا ہے۔ اس ویڈیو پر ایکس صارفین نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

ایکس صارف ڈاکٹر فرحان کے ورک نے یہ ویڈیو دوبارہ شیئر کرتے ہوئے لکھا ’وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے گزارش ہے کہ خدارا!  افشاں لطیف کے انکشافات پر انکوائری کریں اور اس خاتون کے ساتھ انصاف کریں۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’افشاں لطیف گزشتہ کئی سالوں سے سڑکوں پر دھکے کھا رہی ہیں، اس خاتون کو ہم نے پچھلے 4 سال صرف احتجاج کرتے دیکھا ہے، اگر یہ سچی ہیں تو ان کو نوکری پر بحال کریں۔‘

ایک صارف وقار خان نے لکھا کہ ’وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے اب اس بیچاری عورت کی مدد کروانے کے لیے ٹرینڈ چلانا پڑے گا؟ ان حکمرانوں نے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے؟ خدا کی پناہ.‘

بعض صارفین اس ویڈیو پر تنقید کرتے ہوئے بھی نظر آئے ہیں اور اس کو افشاں لطیف کی جانب سے ڈرامہ قرار دیا ہے۔

مظہر عباس نے ایکس پر لکھا کہ ’ویسے اس خاتون کو میڈیا میں’ان‘ رہنے کا ہنر آتا ہے، پہلے ’کاشانہ سکینڈل‘ کا ڈرامہ رچایا، پھر جب وہ الزامات ثابت نہ کر سکی اور نوکری سے فارغ ہو گئی تو اب یہ نیا ’ڈرامہ‘ لانچ کر دیا ہے۔ محترمہ شاید عدالتوں کے بجائے ’کیمرہ‘ کی طاقت پر زیادہ یقین رکھتی ہیں۔

واضح رہے کہ 2019 میں سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نے الزام عائد کیا تھا کہ کاشانہ میں کم عمر لڑکیوں کی زبردستی شادیاں کرائی جاتی ہیں اور صوبائی وزیر اجمل چیمہ بھی بچیوں سے ملتے تھے جس میں  ایک سابق سپرنٹنڈنٹ بھی ملوث تھی۔

افشاں لطیف نے اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ سے بھی رجوع کیا اور اپنی درخواست میں معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی استدعا کی۔

افشاں لطیف کے ان الزامات کو چیئرمین پنجاب بیت المال ملک اعظم اور اجمل چیمہ نے ڈرامہ قرار دیا تھا۔

بعد ازاں افشاں لطیف کو ان کی ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا۔

افشاں لطیف کا نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور آرمی چیف سید عاصم منیر کو خط

اپریل 2023 میں افشاں لطیف نے نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو خط لکھ  کر کاشانہ سکینڈل میں انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔

افشاں لطیف نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ چائلڈ ابیوز مافیا کی جانب سے افسران کو ترقیاں دے کر فلاحی اداروں اور یتیم خانوں میں انچارج لگایا جاتا ہے۔ مجھے بھی ترقی دے کر سپرنٹنڈنٹ کاشانہ تعینات کیا گیا اور اس گھناؤنے کاروبار کا حصہ بننے پر مجبور کیا گیا۔

انہوں نے خط میں کہا تھا کہ  ان سے پہلے کاشانہ میں محکمہ سوشل ویلفیئر کے افسران اپنی ترقیوں اور پیسوں کے لیے عرصہ دراز سے چائلڈ ابیوز کا دھندا کررہے تھے۔ یتیم لاواث بچیوں کے کاشانہ میں داخلے اور اخراج کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ، کئی لڑکیاں کاشانہ کے حاضری رجسٹر میں تو موجود تھیں لیکن ادارہ سے غائب تھیں۔

‘ڈونیشن کے نام پر معصوم یتیم اور لاوارث بچیوں کا جنسی کاروبار کیا جاتا ہے۔ جعلی شادیاں کروا کر بچیوں کو بااثر افراد کو فروخت کیا جاتا ہے۔ کئی بچیوں کو بیرون ملک بیچا گیا، انہوں نے مزید بتایا کہ ان سے پہلے کاشانہ میں تعینات سپرنٹنڈنٹ نے 2013 سے 2018 تک یتیم لاوارث لڑکیوں کی جعلی شادیاں کروائیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔‘

یتیم بچیوں کو ڈونرز کے ساتھ کئی روز تک ادارے سے باہر ہوٹلز اور گیسٹ ہاوسز میں بھیجا جاتا تھا اور جب بچیاں واپس لائی جاتی تھیں تو ان کی جسمانی حالت انتہائی خراب ہوتی تھی اور  ان کے جسم کے کئی حصے بری طرح زخمی ہوتے تھے۔ پرائیویٹ ڈاکٹرز کو بلوا کر ان کی سرجریاں تک کروائی جاتی تھیں۔

خط میں لکھا کہ کاشانہ میں متاثرہ بچیوں کی جانب سے جنسی درندگی کی ایسی باتیں بتائی گئیں کہ بحیثیت ایک ماں اور عورت میری روح کانپ گئی۔ میں نے محکمہ ویلفیئر کے تمام غیر قانونی احکامات ماننے سے اس وقت انکار کیا جب محکمے کی جانب سے عنایات کی بارش کی جارہی تھی۔

افشاں لطیف نے خط میں لکھا تھا کہ  12 جولائی 2019 کو سیکریٹری سوشل ویلفیئر عنبرین رضا کو تحریری درخواست بھی دی، کاشانہ کی یتیم بچیوں نے تما م محکمانہ انکوائریز میں بیانات بھی ریکارڈ کروائے جن میں ان بچیوں نے جنسی کاروبار میں استعمال ہونے سے متعلق تمام تفصیلات بھی بتائیں۔

انہوں نے خط میں مزید لکھا تھا کہ  کاشانہ سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد 2لاوارث لڑکیوں اقرا، کائنات اور ساجدہ کو قتل کر دیا گیا اور دیگر گواہ لڑکیوں کو بھی کاشانہ سے غائب کروا دیا گیا، جن کے بیانات تمام محکمانہ انکوائریز میں ریکارڈ تھے اور میڈیا پر بھی چلائے گئے۔

’مورخہ 12 جولائی 2019 کو دی گئی تحریری درخواست کے بعد مجھ پر اور کاشانہ کی یتیم بچیوں پر زندگی تنگ کر ی گئی۔ سرکاری افسران اور عمران خان کے وزرا اپنے دفاتر میں بلا کر میری چادر کھینچتے تھے اور جنسی طور پر ہراساں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یتیم بچیوں کے کھانے پینے کا بجٹ بھی بند کر دیا گیا۔‘

افشاں لطیف نے خط میں لکھا تھا کہ صرف کائنات اور ساجدہ ہی نہیں ایسی سینکڑوں لڑکیاں ہیں جو کاشانہ ویلفیئر ہوم میں جنسی کاروبار میں استعمال کی گئیں، جن کو بیچ دیا گیا یا مار دیا گیا۔ یہ معاملہ صرف کاشانہ ہوم کا نہیں بلکہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے دوسرے فلاحی اداروں،  دارالامانوں اور بچوں کے یتیم خانوں میں بھی جنسی کاروبار کا یہ بااثر مافیا پوری طرح سرگرم ہے جس میں محکمہ ویلفیئر کے افسران ملوث ہیں۔ ان اداروں میں 10، دس سالوں تک ایک ہی افسر کو انچارج لگایا جاتا ہے جبکہ ان اداروں میں کوئی بھی انچارج چائلڈ ایبوز کے مافیا کو خوش رکھے بغیر ایک ماہ بھی کام نہیں کر سکتا۔

کائنات الیاس اور اس کے دو بہن بھائی مہک الیاس اور علی الیاس کو  اغوا کر کے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں لایا گیا، والدین اور رشتہ دار ہونے کے باوجود انہیں لاوارث قرار دے کر چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہور میں رکھا گیا جہاں ان تینوں کا بدترین جنسی استحصال کیا گیا۔ کائنات الیاس کو قتل کر دیا گیا جبکہ مہک اور علی الیاس تاحال لاپتہ ہیں۔ ممکنہ طور پر وہ بھی مارے جاچکے ہیں۔

درخواست گزار اور مدعی ہوتے ہوئے عمران خان کی حکومت اور سرکاری افسران نے مجھے خاموش کروانے کے لیے مجھے بد ترین تشدد اور ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔

میرے شوہر پر متعدد جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات درج کروا کر کوٹ لکھپت جیل میں ڈیتھ سیلز میں قید کر دیا گیا۔ میرا گھر جلا دیا گیا اور غیر قانونی طور پر میری نوکری چھین لی گئی۔ آج میرے بچے میرے ساتھ دربدر ہیں۔ میرے بچوں کی تعلیم اور اچھی خوراک ختم کر دی گئی اور ان کے بنیادی حقوق سلب کر دیے گئے۔

خط کے اختتام میں استدعا کی گئی کہ آپ سے اپیل ہے کہ سرکاری اور فلاحی اداروں، یتیم خانوں کی سخت ترین مانیٹرنگ کی جائے اور کاشانہ سکینڈل میں میرٹ پر انصاف کیا جائے۔ میں تمام تر حقائق کے بارے میں اعلٰی حکام اور چیف سیکریٹری پنجاب کو  جولائی 2019 سے تفصیل سے لکھتی رہی ہوں۔ کاشانہ سکینڈل میں لاکھوں ثبوت ہیں۔

سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کی جانب سے خط کے ساتھ کچھ دستاویزات بھی ارسال کی گئیں تھی  جن میں انکوائری آرڈرز سابق وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار (26 اگست 2019)، تحقیقاتی رپورٹ سیکریٹری سوشل ویلفیئر عنبرین رضا (25 جولائی 2019)، لیٹرز وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار اور چیف سیکریٹری پنجاب، کائنات کی فرانزک اور پوسٹمارٹم رپورٹ، تحریری درخواست بنام سیکریٹری سوشل ویلفیئر (12 جولائی 2019) اور 2013 سے 2018 تک ہونے والی جعلی شادیوں کی فہرست شامل تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp