جمعیت علما اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملین مارچ اور ملک گیر احتجاج کی تیاری شروع کر دی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مرکز میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی ساتھ لے کو چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں
ترجمان جے یو آئی خیبر پختونخوا حاجی جلیل جان نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ عید کے بعد ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔
جلیل جان نے اس کی کچھ زیادہ تفصیل نہیں بتائی تاہم انہوں نے کہا کہ عید کے بعد مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی جائے گی جس کے لیے ابھی سے تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔
پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ الیکشن نتائج پر مولانا بدستور غصہ ہیں اور کسی صورت بھی نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں تو لگ رہا تھا کہ مرکز میں ہماری جماعت حکومت کا حصہ ہو گی اور مولانا صدر ہو ں گے جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی ہماری حکومت ہوگی لیکن ہوا بالکل مختلف‘۔
انہوں نے بتایا کہ الیکشن نتائج سے مولانا کو دھچکا لگا ہے اور ‘جن’ کے کہنے پر وہ افغانستان گئے تھے ان سے بھی ناراض ہیں اور اپنی بات منوانے کے لیے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مولانا پارلیمنٹ میں نیوٹرل جبکہ باہر احتجاج کی سیاست اپنائیں گے۔
’احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘
پشاور کے سینیئر صحافی لحاظ علی کا کہنا ہے کہ مولانا لانگ ٹرم کھلیں گے اور بیانیہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’مولانا کو لگ رہا ہے کہ یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی اس لیے ورکرز کو متحرک رکھنے کے لیے احتجاج، جلوس اور ختم نبوت کانفرنسز کا سہارا لیں گے‘۔
لحاظ علی نے بتایا کہ مولانا بیانیہ بنانے کے لیے عمران خان کا طریقہ اپنا رہے ہیں جس کے لیے وہ اسمبلی نہ حکومت اور نہ ہی اپوزیشن کے ساتھ ہوں گے بلکہ الگ نیوٹرل بیٹھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج اور دھرنوں سے مولانا کا فائدہ نہیں ہو گا۔
پشاور کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار محمود جان بابر کا خیال ہے کہ احتجاج اور دھرنوں سے مولانا فضل الرحمان کا شاید کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے صورتحال پر اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئےبتایا کہ اس وقت حالات مولانا کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’اگر دیکھا جائے تو مولانا سنہ 2018 میں بھی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن پھر وہ ن لیگ اور پی پی پی کے کہنے پر مان گئے تھے جس کا اب انہیں افسوس بھی ہے‘۔
محمود جان نے کہا کہ الکیشن میں شکست کے بعد جے یو آئی کے ورکرز کا حوصلہ پست ہوا ہے اور وہ شاید دھرنوں کے لیے تیار نہ ہوں جس کا مولانا فضل الرحمان کو بھی بخوبی اندازہ ہے۔
’انتخابات دوبارہ ہو بھی گئے تو مولانا کی کوئی تیاری نہیں ہے‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت مولانا فضل الرحمان کی تیاری بھی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر موجودہ حکومت کسی وجہ سے نہ چل سکی اور انتخابات بھی دوبارہ ہوئے تو بھی اس کے لیے مولانا کی تیاری نہیں ہے‘۔
محمود جان کا کہنا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ مولانا احتجاج کے بجائے انتظار کریں گے اور ورکرز کو دوبارہ سرگرم کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ تاکہ طاقتور حلقوں کو بھی اپنے عوامی طاقت دکھا سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان اور عمران خان میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے اپنے ورکرز کو متحرک رکھنا اور دونوں یہ گر جانتے ہیں۔
’احتجاج اور دھرنوں کا موسم نہیں ہے‘
محمد فہیم پشاور کے سینیئر صحافی ہیں اور سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق مولانا کے احتجاج اور دھرنوں سیاست کے لیے موسم بھی سازگار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو حکومت بنی ہے اور ابھی سے ہی احتجاج شروع کرتے ہیں تو کتنے عرصے تک جاری رکھ سکیں گے۔
محمد فہیم نے کہا کہ ’میری رائے میں مولانا انتظار کریں گے اور شاید اگلے رمضان تک۔ تب تک صورت حال بھی واضح ہوجائے گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ شکست کے بعد مولانا کی جماعت بھی اندورنی انتشار کا شکار ہے اور کوئی بھی شکست کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں لہٰذا ایسے حالات میں احتجاجی تحریک شروع کرنا کچھ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہو گا۔
’حکومت جے یو آئی کو ترقیاتی فنڈز دے گی‘
انہوں نے بتایا کہ مولانا زیادہ دیر تک حکومت سے باہر بھی نہیں رہ سکتے اور ان کا اصل ہدف صوبائی حکومتیں ہیں جو وہ کے پی اور بلوچستان میں مانگ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت مولانا کو ہر صورت خوش رکھنے کی کوشش کرے گی اور ترقیاتی فنڈز بھی دے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’ہوسکتا ہے کہ احتجاج کی دھمکیوں کے بعد انہیں کابینہ میں شمولیت کے لیے گرین سگنل مل جائے‘۔