اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی ضمانت منسوخی کی درجواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سیشن کورٹ سے رجوع کریں اور ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا بیان حلفی بھی اسی عدالت میں جمع کرائیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری برقرار رکھتے ہوئے درخواست نمٹا دی گئی۔
درخواست کی سماعت کے آغاز میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس سے پہلے وارنٹس گرفتاری کو چلینج کیا تھا جس پر اس عدالت نے 7مارچ کو آرڈر کیا اور عمران خان کو پیش ہونے کا موقع دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ہم نے آپ کو موقع دیا تھا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 13مارچ کو بھی عمران خان پیش نہ ہو سکے،چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ کدھر تھے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ وہ گھر پر تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ غلط بات ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کہتا ہے کہ اگر اثاثہ جات کی تفصیلات میں غلطی پائے جائے تو 120 میں کاروائی کی جا سکتی ہے، درخواست دائر کرنے والا کمپیٹینٹ نہیں تھا اور یہ مقررہ معیاد کے بعد دائر کی گئی، اس لئے یہ مقدمہ شروع ہی سے غلط ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ابھی آپ کی درخواست پر فیصلہ تو نہیں ہوا یہ اعتراضات آپ وہاں اٹھا سکتے ہیں، عمران خان کے خلاف درخواست میں بنیادی خامیاں ہو سکتی ہیں، لیکن موجودہ صورت حال میں گرفتاری کا آرڈر تو ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وارنٹس کا صرف مقصد عمران خان کی حاضری یقینی بنانا ہے، میرے مؤکل 18مارچ کو عدالت میں پیش ہوں گے، میں ذاتی طور پہ ان کی ضمانت دیتا ہوں۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث کے ذاتی طور پر ضامن بننے پہ اظہار تعجب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب ! کچھ بھی بغیر تحقیق کے نہیں کہتے، میرے لئے جو کچھ لاہور میں ہو رہا ہے وہ بھی ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری عدالتوں کی تکریم ہے۔ عدالت چھوٹی ہو یا بڑی اس کے فیصلے کی عزت ہونی چاہیے، لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے ،ہم دنیا کو قانون کی بے توقیری دکھا رہے ہیں۔ ایسا تو قبائلی علاقوں کے بارے میں سنتے تھے۔ قانون ایک شخص کے لئے اور دوسرے کے لئے اور نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت چھوٹی ہو یا بڑی اس کی عزت ہونی چاہیے، ہمارے لئے سب سے زیادہ عزت عدالتوں کی ہے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی کسٹڈی کے بارے میں کچھ خدشات ہیں جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اس طرح کے دو، تین واقعات میرے علم میں ہیں۔ ایک پہ تو میں نے کمیشن بنا دیا ہے، شہباز گل والا معاملہ میرے علم میں ہے، س معاملے میں مقصد تو صرف عدالت میں پیش کرنا ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے عمران خان کے ضامن بننے کی پیشکش پر ایڈیشنل آٹارنی جنرل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اگر عمران 18مارچ کو پیش نہیں ہوتے تو خواجہ حارث کے خلاف چارج تو فریم نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت کی عزت و تکریم کا سوال ہے ، عدالت تو دور کی بات ، کیا برطانیہ میں پولیس والے کی وردی پہ کوئی ہاتھ بھی لگا سکتا ہے؟ پولیس والے اور زخمی ہونے والے ہمارے بچے ہیں، مجھے دیکھنے دیں کہ مجھے بیلینس کرنا ہے۔ دونوں طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ دونوں طرف سے نہیں، عمران خان کیوں گرفتاری سے بچ رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اس صورت حال کا حل عدالتوں کے پاس تو نہیں بلکہ اس کو بڑے پیمانے پر سوچنے اور حل کرنے کی ضرورت ہے۔
آج صبح کیا ہوا ؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی درخواست پر عائد بعض اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے ابتدائی سماعت ملتوی کردی ہے۔
عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کی منسوخی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ابتدائی سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے باعزت راستہ دیا تھا لیکن عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عمران خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کی درخواست پر جلد سماعت کرنے کی استدعا کے ساتھ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سمیت دیگر وکلاء روسٹرم پر آ گئے۔
خواجہ حارث بولے؛ لاہور میں جو صورتحال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو ہو رہا ہے وہ آپکا اپنا کیا دھرا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ جو کچھ لاہور میں ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار آپ خود ہیں۔ عدالت نےعمران خان کو عدالت میں پیشی کا ایک باعزت راستہ فراہم کیا تھا جسے اختیار نہیں کیا گیا۔ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کے مضمرات ہو سکتے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ جو کچھ لاہور میں ہو رہا ہے۔ اٹس آ سوری اسٹیٹ آف افیئرز۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سماعت بارہ بجے سے پہلے سماعت کے لئے مقرر کریں۔ میں نے سپریم کورٹ میں ایک کیس میں پیش ہونا ہے۔ سماعت سے پہلے عدالت نے ریگولر کاز لسٹ منسوخ کر دی اور صرف ارجنٹ کیسز سماعت کے لئے مقرر کیے۔۔۔
چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ اس درخواست پر بہت سے اعتراضات ہیں۔ بائیو میٹرک اور دستخط نہ ہونے کے اعتراضات ختم کر دیے ہیں باقی اعتراضات تین دن میں ختم کریں۔ عمران خان کے وکلاء کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تین دن کا مطلب تین دن نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک تو آپ کی درخواست پر ٹکٹیں نہیں ہیں اور دوسرے رجسٹرار آفس کے اعتراضات ہیں۔ جب بھی اعتراضات ختم کر دیے جائیں گے ہم سماعت کے لیے مقرر کر دیں گے۔ آپ آدھے گھنٹے میں میں اعتراضات ختم کر دیں۔ میں یہیں موجود ہوں۔‘