طیارہ سازی کی صنعت میں بوئنگ کو دنیا کی بہترین کمپنی بنانے میں دہائیاں صرف ہوئیں لیکن صرف 6 سال کے عرصہ میں اس کی شہرت کو اتنا نقصان پہنچا کہ اب اس عظیم امریکی کمپنی کا وجود خطرے سے دو چار ہے۔
مزید پڑھیں
امریکی ریاست جنوبی کیرولینا میں واقع بوئنگ فیکٹری میں تیار کردہ طیاروں میں دوران سفر تکنیکی خرابی پیدا ہوجانا اب ایک معمول بن گیا ہے۔ یہ معاملہ اس قدر سنجیدہ ہے کہ ریگولیٹرز، دیگر ایئرلائنز، جہازوں کے عملے کے ارکان کے علاوہ بوئنگ کے اپنے ورکز بھی اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔
ان دنوں بوئنگ اور اس کے کلیدی سپلائر سپرٹ ایرو سسٹمز کے پیداواری معیارات کی سخت جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ سرمایہ کار بوئنگ میں سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور رواں برس اس کے حصص میں 27 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔
تکنیکی خرابی کے حالیہ واقعات
بوئنگ کے کسی طیارے میں تکنیکی خرابی کا آخری واقعہ آج پیش آیا جب بوئنگ 777 کو فنی خرابی کے باعث لاس اینجلس کے ہوائی اڈے پر اتار لیا گیا۔ اس سے قبل، پیر کے روز آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ جانے والا بوئنگ 787 ڈریم لائنر دوران پرواز جھٹکے کھانے لگا تھا جس کے باعث جہاز میں موجود متعدد مسافر زخمی ہوگئے تھے۔
BREAKING: American Airlines Boeing 777 forced to make emergency landing at Los Angeles airport due to a mechanical issue
— The Spectator Index (@spectatorindex) March 14, 2024
اس واقعہ اور 2 روز قبل بوئنگ ملازم کی خودکشی کے واقعہ کے بعد امریکی ہوا بازی کے ادارے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) نے انکشاف کیا کہ بوئنگ 737 میکس طیارے کی تیاری کے دوران 89 میں سے 33 آڈٹ میں کمپنی ناکام ہوئی۔ پیر کے واقعہ اور اس سے قبل پیش آئے واقعات کے پیش نظر یونائیٹڈ ایئرلائنز نے بوئنگ سے نئے طیاروں پر کام روک دینے کی درخواست کی ہے۔
خامیوں کی نشاندہی کرنے والے سابق ملازم کی خودکشی
واضح رہے کہ 2 روز قبل بوئنگ کے پیداواری معیار میں خامیوں کی نشاندہی کرنے والا سابق کوالٹی منیجر امریکی شہر کارلسٹن کے ایک ہوٹل کی کار پارکنگ میں اپنی گاڑی میں مردہ پایا گیا تھا۔ جان بارنیٹ نے 32 سال تک بوئنگ میں کام کیا اور 2017 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے بوئنگ کے خلاف ایک مقدمہ درج کرایا تھا جس میں انہوں نے کمپنی کی طرف سے پیداواری معیار میں خامیوں کی نشاندہی کے باوجود ان خامیوں کو دور کرنے کے اقدامات نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
United Boeing 777 is forced to land after fuel leak during takeoff – the FIFTH safety incident in week that included suicide of whistleblower – as airline tells aviation giant to STOP making its delayed 737 Max 10s https://t.co/I8HxjPKZ3T pic.twitter.com/Ccqcpf1V5w
— Daily Mail Online (@MailOnline) March 13, 2024
جان بارنیٹ نے 2019 میں بتایا تھا کہ دباؤ کے تحت کام کرنے والے کارکن جان بوجھ کر پروڈکشن لائن پر ہوائی جہاز میں غیر معیاری پرزے لگا رہے تھے۔ انہوں نے طیاروں میں آکسیجن کے نظام میں سنگین مسائل کی نشاندہی کی جس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہر چار میں سے ایک سانس لینے والا ماسک ایمرجنسی میں کام نہیں کرے گا۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 787 میں لگائے جانے والے ہنگامی آکسیجن سسٹم کے ٹیسٹوں میں ناکامی کی شرح 25 فیصد پائی گئی۔ جان بارنیٹ نے کہا کہ انہوں نے مینیجرز کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی،تاہم بوئنگ نے ان کے دعووں کی بھی تردید کی لیکن امریکی ریگولیٹر، فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن کے 2017 کے جائزے نے ان کے کچھ خدشات کو درست قرار دیا ۔
BREAKING: The New York Times reports that Boeing's production process has failed 33 of 89 audits conducted during an FAA probe
— The Spectator Index (@spectatorindex) March 12, 2024
انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیکٹری میں کم از کم 53 غیر موزوں پرزے غائب ہو گئے ۔ جان بارنیٹ نے ملازمت کے دوران مسائل کی نشاندہی پر کمپنی کی طرف سے اپنی تذلیل کرنے اور اپنے کیریئر میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا تاہم بوئنگ کی طرف سے الزامات کو بھی مسترد کر دیا گیا تھا۔
بوئنگ سے ٹکر لینا ناممکن ہے؟
گزشتہ 6 سال کے دوران بوئنگ کے طیاروں میں کئی مرتبہ فنی خرابی پیدا ہوئی، تاہم جہاز گرنے کے 2 بڑے واقعات پیش آئے جن میں 346 افراد ہلاک ہوئے۔ ان حادثات کے باعث کمپنی کو اربوں ڈالر کا نقصان اور اتنے ہی اربوں ڈالر ہرجانے کے طور پر ادا کرنا پڑے۔ اگر کوئی اور کمپنی ہوتی تو اب تک وہ فروخت یا دیوالیہ ہوچکی ہوتی، لیکن بوئنگ ’کوئی اور‘ کمپنی نہیں۔
A journalist from Al Jazeera visited a Boeing plant in South Carolina, where workers assembling Dreamliners B-787 expressed concerns about safety and production issues.
Many employees admitted they wouldn't feel safe flying on the planes they helped build, with some revealing… pic.twitter.com/E17Tgh9JAD
— Carolina. (@realCarola2Hope) March 12, 2024
امریکی نیوز چینل سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق، بوئنگ ایک امریکی نجی ایرواسپیس کمپنی ہے جس کے مفادات سے کوئی ٹکر نہیں لے سکتا اور نہ ہی کوئی ہوا بازی کا نگران ادارہ اس کے خلاف کوئی سنجیدہ نوعیت کی کارروائی کرسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بوئنگ اتنی بڑی کمپنی ہے جس کا بظاہر یورپی کمپنی ’ایئر بس‘ سے مقابلہ ہے مگر در حقیقت یہ سرے سے مقابلہ ہے ہی نہیں، کیونکہ بوئنگ کے اہم صارفین ایئرلائنز ہیں جو بوئنگ طیاروں سے مایوس ہونے کے بعد با آسانی ایئر بس کے طیارے استعمال نہیں کرسکتیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پائلٹ کسی ایک کمپنی سے سرٹیفائیڈ ہوتے ہیں، اسی لیے کوئی بھی ایئرلائن جب بوئنگ کا انتخاب کرتی ہے وہ گویا وہ اس کمپنی کے جال میں بری طرح پھنس جاتی ہے۔