2018 میں ایوان بالا کا حصہ بننے والے سینیٹرز نے رواں برس 12 مارچ کو اپنی آئینی مدت مکمل کی۔ جس کے بعد مجموعی طور پر سینیٹ کی 52 نشستیں خالی ہوئیں، جس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 2 اپریل کو پولنگ کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں نے ایوان بالا میں امیدواروں کو میدان میں اتارنے کے لیے سر جوڑ لیے ہیں اور سیاسی رابطوں کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا ہے۔
بات ہو اگر رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی تو صوبے سے 11 سینیٹرز اپنی آئینی مدت مکمل کر رہے ہیں اور ایسی صورت میں نظریاتی، قوم پرست اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے سینیٹ انتخابات کے لے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) نے جمعہ کے روز پارٹی کی مرکزی قیادت سے منظوری کے بعد آئندہ سینیٹ انتخابات کے لیے ملک بھر سے اپنے نامزد امیدواروں کے نام جاری کردیے ہیں۔ پی پی پی کی جانب سے بلوچستان میں ایمل ولی خان، جان محمد بلیدی، میر چنگیز خان جمالی، سردار عمر گورگیج ٹیکنوکریٹ کے لیے بلال مندوخیل جبکہ خواتین کے لیے عشرت بلوچ اور کرن بلوچ کو نامزد کیا گیا ہے۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان کو اے این پی اور پی پی پی نے مشترکہ امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا ہے۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے ترجمان مابت لالا نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے ایمل ولی کو مشترکہ امیدوار کے طور پر اترا گیا ہے۔ مرکز میں دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات طے پا جانے کے بعد ایمل ولی خان کو بلوچستان سے سینیٹر کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
مابت لالا نے مزید بتایا کہ ایمل ولی خان بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے شناختی کارڈ ہولڈر ہیں اور آئندہ سینیٹ انتخابات کے لیے مضبوط امیدوار ہیں۔ ایمل ولی خان کا بلوچستان سے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سینیر صحافی سید علی شاہ نے بتایا کہ یہ بات بہت واضح ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا جنرل الیکشن میں بلوچستان کا رخ کرنا ہو یا ایمل ولی خان کا سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے حصہ لینا ایک جانب اشارہ کر رہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی موجودگی نے ان 2 جماعتوں کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
’یہ دونوں امیدوار مجبوراً بلوچستان کا رخ کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی نے کے پی کے سے ان دونوں جماعتوں کا صفایا کردیا ہے‘۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے درمیان ماضی کی ایک قربت موجود ہے، اور اس بات کے امکانات روشن ہیں کہ ایمل ولی خان صوبے سے سینیٹر منتخب ہوں گے۔ بلوچستان میں ہمشیہ سے سرمایہ دار آتے رہے ہیں ملک میں جہاں سے امیدوار ناکام ہو جاتے ہیں تو بلوچستان سے سینیٹ کا رخ کر لیتے ہیں۔
صوبے کے ایک اور سینئر صحافی کفایت علی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی بلوچستان سے کئی ایسے سینیٹرز منتخب ہو چکے ہیں جن کا تعلق اس صوبے سے نہیں تھا۔ بلوچستان سے سینیٹر منتخب کروانا ایک آسان کام ہے کیونکہ اراکین کی تعداد بہت کم ہے اور ایسی صورت میں صاحب اقتدار جماعت اپنے امیدوار کو باآسانی منتخب کروا لیتی ہے۔
کفایت علی نے کہا کہ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ عبدالقادر جن کا تعلق سندھ سے تھا یہاں سے سینیٹر منتخب ہوئے اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ جب پیپلز پارٹی کی صوبے میں ایک بھی نشست موجود نہیں تھی تو ان کا ایک سینیٹر یہاں سے کامیاب ہوا۔ جہاں تک ایمل ولی کا تعلق ہے تو یہ ایک بڑی سیاسی چال ہوگی کہ انہیں ایوان بالا میں پہنچایا جائے۔