سینیٹ انتخابات، بلوچستان سے کون سی سیاسی جماعت کتنی نشستیں حاصل کر سکے گی؟

منگل 26 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

رواں ماہ ایوان بالا میں 52 سینیٹرز کی آئینی مدت مکمل ہو چکی ہے۔ سینیٹ میں ان خالی نشستوں پر انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 2 اپریل کی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔ سینیٹ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر کی نظریاتی، قوم پرست اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے اپنے امیدواروں کو سیاسی اکھاڑے میں اتار دیا ہے۔

رقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان سے 11 سینیٹرز اپنی آئینی مدت پوری کرچکے ہیں۔ ان میں 7 جنرل، 2 ٹیکنوکریٹ اور 2 خواتین سینیٹرز کی نشستیں شامل تھیں۔ سینیٹ کے آئندہ انتخابات میں بلوچستان کی ان نشستوں پر مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی سمیت کئی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جن کی جانچ پڑتال کا سلسلہ بھی مکمل ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن بلوچستان کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، اس بار سینیٹ الیکشن میں 7 جنرل نشستوں پر 15، ٹیکنوکریٹ کی 2 خالی نشستوں کے لیے 6 جبکہ خواتین کی 2 خالی نشستوں کے لیے 7 امیدوار مد مقابل ہیں۔

ن لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی میں نشستوں کی تقسیم

سینیٹ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں نے فارمولہ بھی طے کر لیا ہے۔ وفاق اور صوبے میں ہونے والی مختلف سیاسی بیٹھکوں اور جوڑ توڑ کے بعد سینیٹ ایڈجسٹمنٹ پر معاملات تقریباً طے پا چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سینیٹ  الیکشن میں پیپلز پارٹی، اے این پی، نیشنل پارٹی، جے یو آئی اور بی اے پی کو ایک ایک جنرل نشست ملے گی جبکہ مسلم لیگ ن کو 2 جنرل نشستیں دینے پر اتفاق ہوا ہے۔ ٹیکنوکریٹ کی 2 خالی نشستوں پر پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام (ف) کے امیدوار کو فائنل کیا گیا ہے جبکہ خواتین کی 2 نشستیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو دینے پر معاملات طے پا گئے ہیں۔ یوں طے کردہ فارمولے کے تحت مجموعی طور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے 3، 3 سینیٹرز جبکہ جمعیت علما اسلام کو سینیٹ میں 2 نشستیں ملیں گی۔

ایمل ولی خان بھی بلوچستان سے منتخب ہوں گے؟

سیاسی تجزیہ نگاروں کا مؤقف ہے کہ مرکز کی سیاسی جماعتوں کے لیے بلوچستان سینیٹ انتخابات کے حوالے سے ایک آسان محاذ رہا ہے کیونکہ یہاں صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد باقی صوبوں سے کم ہوتی ہے جنہیں مینیج کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ صوبے میں ہمشیہ سے مخلوط حکومت قائم ہوتی رہی ہے جس کی وجہ سے من پسند افراد کو آسانی سے ایوان بالا میں لایا جا سکتا ہے۔ جبکہ صوبے کی تلخ حقیقت یہ بھی رہی ہے کہ یہاں سے دیگر صوبوں کے امیدواروں کو بھی کامیاب کروا کر ایوان بالا میں پہنچایا گیا ہے اور اس بار بھی ایمل ولی خان کو بلوچستان سے سینیٹر منتخب کروا کر ان کے شکوے دور کیے جائیں گے۔ ایسے میں صوبے کی عوام میں احساس محرومی مزید بڑھے گی کیونکہ علاقے کے نمائندے ایوان بالا تک پہنچنے سے محروم رہیں گے اور عوامی نوعیت کے مسائل پر صوبے کی نمائندگی کرنے والے لوگ ایوان میں نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp