گزشتہ روز پاکستان نے میر علی شمالی وزیرستان میں دہشت گرد حملوں کے جواب میں افغانستان کے شہروں پکتیکا اور خوست میں فضائی حملے کیے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق کارروائیاں حافظ گل بہادر گروپ اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کی گئیں۔لیکن اس کے جواب میں افغان عبوری حکومت کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور کابل میں تعینات پاکستانی سفیر کو احتجاجی مراسلہ بھی دیا گیا۔
مزید پڑھیں
اس سے قبل بھی پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں کی گئیں ہیں لیکن اس بار افغان طالبان حکومت نے اس پر سخت ردعمل دیا ہے، اس ردعمل کی وجوہات کیا ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان اگر یہ مخاصمت برقرار رہتی ہے تو اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے؟ اس حوالے سے ہم نے خارجہ پالیسی کے ماہرین سے بات چیت کی ہے۔
اقوام متحدہ قراردادوں اور دوحہ معاہدے کے تحت افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی: ڈاکٹر ماریہ سلطان
ساؤتھ ایشیئن اسٹریٹجک سٹیبلٹی انسٹیٹوٹ کی چیئر پرسن اور ماہر امور خارجہ ڈاکٹر ماریہ سلطان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغان عبوری حکومت دوحہ معاہدے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں 1373 اور 1267 کے نتیجے میں قائم ہوئی جو کہ اقوام متحدہ چارٹر کے چیپٹر 7 کے ماتحت ہیں۔ ان قراردادوں میں کہا گیا تھا کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی اور اگر ایسا ہوا تو اقوام متحدہ کے رکن ممالک طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پاکستان فوج کی سرحدی جھڑپیں ہوتی تھیں اور ان دہشت گردوں کو واپس دھکیل دیا جاتا تھا لیکن اس بار پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں جو اس جواز کو تقویت دیتے ہیں کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے اور اس سے افغان عبوری حکومت کا عالمی تاثر خراب ہوگا اور افغان عبوری حکومت کو اس کے لیے دنیا کے سامنے جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔
تعاون نہ کرنے کی صورت میں افغان حکومت کے لیے مشکلات بڑھیں گی
ایک سوال کے جواب کہ اگر یہ لڑائی طویل ہوتی ہے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے، ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ افغانستان ایک لینڈلاک ملک ہے اور وہاں حالات پہلے ہی خراب ہیں، اگر وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے تو ان کے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
علاقائی ملکوں کو مل کر افغان سرزمین سے اٹھنے والے دہشت گردی کے مسئلے کے خلاف کام کرنا چاہیے: ایمبیسڈر مسعود خالد
پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے افغان عبوری حکومت کی جانب سے حقیقتا ایک سخت ردعمل آیا ہے اور یہ غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی کاروائیوں میں ملکی خودمختاری کے عوامل میں شامل ہو جاتے ہیں۔ چند روز قبل افغان عبوری حکومت کے اہلکاروں کی بھارتی حکام سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ ان ملاقاتوں میں کیا باتیں ہوئی ہیں۔
دہشت گردی کیخلاف ملکر کام کرنے کی ضرورت
اقوام متحدہ اور دوحہ معاہدے میں تو کہا گیا ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی، لیکن افغان عبوری حکومت کسی بھی معاہدے کو خاطر میں نہیں لاتی وہاں مظالم بھی جاری ہیں اور پھر تحریک طالبان پاکستان سے ٹوٹ کر بننے والے نئے گروپس بھی شامل ہیں۔
اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ علاقائی ملک مل کر افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کے خلاف کام کریں۔