داستان گوئی کہانی بیان کرنے کا ایک مخصوص انداز ہے جس میں رزمیہ داستانوں کو ڈرامے کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
کہانی سنانے والے کے پاس الفاظ کا سمندر ہوتا ہے جس سے وہ کہانی کا مکمل منظر کھینچتا ہے اور ان کہانیوں میں تجسس بھی بلا کا ہوتا ہے۔ کہانی بیان کرنے والے کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ سننے والا اس انتظار میں رہتا ہے کہ کہا نی میں آگے کیا ہونے والا ہے۔
کہتے ہیں کہ قصہ گوئی کا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی تہذیب و ثقافت۔ قدیم زمانے میں لوگوں کے پاس تفریح کا کوئی سامان میسر نہیں رہتا تھا اور فلم، تھیٹر، ٹی وی جیسی تفریحات ابھی معرض وجود میں نہیں آئی تھیں۔ داستان گوئی کا فن تفریح کا اہم ذریعہ تصور کیا جاتا تھا اور عوام و خواص میں یکساں مقبول تھا۔
داستان گوئی کا سب سے مرکزی کردار داستان گو ہے جس کی آواز ہی ایک فن ہے۔ وہ کہانی میں اپنی آواز کا جادو شامل کرکے داستان کی اثر انگیزی کو بام عروج تک پہنچا دیتا ہے۔
اگر محض ایک صدی قبل تاریخ میں جھانکیں تو روز مرہ زندگی میں کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی بس اپنی خوراک کا انتظام کرنے کے بعد انسان اپنی زندگی جی رہا ہوتا تھا تب سے داستان گوئی کا رواج پڑا۔
پیٹ کی ضروریات سے فارغ ہو کر لوگ ایک جگہ جمع ہو جاتے اور ایک دوسرے کو زندگی کے بارے میں اپنے تجربات بتاتے۔ کوئی کسی جگہ کی سیاحت کر کے آ جاتا یا شکار کر کے واپس لوٹتا یا مہم جوئی وغیرہ سرانجام دیتا تو واپسی میں اپنے ساتھ بہت ساری نئی معلومات لے آتا اور لوگ فارغ وقت میں ایسے افراد کے گرد جمع ہو جاتے۔ مہمات سے لوٹنے والے اپنے ساتھ بیتے واقعات کو چسکے لگا کے بیاں کرتے اور سننے والے ان واقعات کو سن کے لطف اندوز ہوتے۔
یوں معاشرے میں داستان گوئی کی روایت پڑ گئی ہوگی اور وقت گزاری کا ایک دلچسپ ذریعہ وجود میں آ گیا ہوگا۔
کچھ قصے تو برسوں ختم نہ ہوتے
لوگوں کو قصے کہانیاں سننا بیحد پسند تھا۔ ایسے قصوں میں ما فوق الفطرت عناصر جیسے دیو، دیوتا، پریاں، جن وغیرہ شامل ہوا کرتے تھے۔ داستان گوئی کی باضابطہ محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں اور ایک داستان پیش کرنے میں کئی مہینے درکار ہوتے تھے اور کچھ داستانوں کو ختم ہونے میں تو کئی سال لگ جاتے جس کی مثال داستان الف لیلہ ہے۔
داستان گوئی ایک فارسی لفظ ہے۔ داستان کہتے ہیں کہانی کو اور گو کا مطلب ہے کہنے والا یا سنانے والا چنانچہ داستان گو کے معنی ایسا شخص جو داستان سنائے۔
نظام الدین اولیا کا واقعہ
ہندوستانی داستان گوئی کو درباری داستان گوئی یا ہندوی داستان گوئی بھی کہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 13ویں صدی کے ادیب اور شاعر امیر خسرو کے شیخ مشہور صوفی نظام الدین اولیاء ایک مرتبہ علیل ہوئے تو امیر خسرو نے ان کی طبیعت بہلانے کے لیے قصہ چہار درویش/ باغ و بہار اور الف لیلہ و لیلہ کی کہانیوں کے مجموعے انہیں سنائے۔
جب تینوں کہانیاں ختم ہوگئیں تو نظام الدین اولیا بالکل ٹھیک ہو گئے اور فرمایا کہ جو بیمار ان 3 کہانیوں کو سن لے وہ شفایاب ہوگا۔
ماہر بشریات غوث انصاری کے مطابق داستان گوئی کی جڑیں قبل از اسلام عرب سے ملتی ہیں۔ پھر اسلام کی اشاعت نے اس فن کو ایران تک پہنچایا اور ایران والے ہندوستان دہلی لے کر آئے۔ سنہ 1857 کی بغاوت کے بعد جب لوگ دہلی سے لکھنؤ پہنچے تو دوسری اصناف ادب کے ساتھ ساتھ داستان گوئی بھی لکھنؤ گئی۔
بادشاہوں کے درباروں میں سنائے جانے والے قصوں میں زیادہ تر مہم جوئی،جنگی بہادری، بادشاہوں کے ساتھ وفاداری، بذلہ سنجی، بادشاہوں کے انصاف، وزیروں کی حاضر دماغی، پہلوانوں کا آپس میں مقابلہ، پہلوانوں کا دیو وغیرہ سے مقابلہ جیسے قصے ہوتے۔ گاؤں کے بڑے اور عام لوگ بھی ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے اور داستان گو بھی بلاتے اور ان کی ضیافت کا اہتمام کرتے اور وہ راتوں کو کہانی سناتے جس سے لوگ محظوظ ہوتے۔
ریاں، خوبرو جوان کا کانے دجال سے مقابلہ، ہنسنے والا راج اور جنات کے قصے۔ یہ کہانیاں اتنی دلچسپ ہوتیں کہ رات گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا۔
بچے اور دادی اماں
بچوں کو کہانیاں اکثر گھروں میں دادی اماں سنایا کرتی تھیں۔ یہ کہانیاں اپنے الفاظ، ترتیب، علم اور معلومات کے لحاظ سے مختلف ہوتیں۔ بچوں کے لیے سنائی جانے والی ان کہانیوں میں اخلاقیات کا پہلو نمایاں ہوتا، جیسا کہ معذور کی مدد کرنا، ماں باپ کا کہا ماننا، بڑوں کی تابعداری، سچ کی فتح، رحم دلی کے قصے، ظالم کا برا انجام، کسی اچھے کردار کے مشکل میں ہونے پر غیبی مدد، مشکل میں پڑنے پر اپنی طرف سے کوئی حل ڈھونڈنا، جھوٹ کا انجام، ماحول سے دوستی، جانوروں سے پیار اور وفاداری، لالچ کا برا انجام اور بہت سے ایسے واقعات بیان ہوتے۔ گھروں میں مائیں بچوں کو بہلانے کے لیے بھی لوری اور قصے کہانیاں سنا کر بچوں کو بہلاتیں۔
داستان گوئی کی ابتدائی تاریخ کا حتمی طور پر کوئی پتا نہیں ملتا تاہم اردو میں اس فن کی منتقلی ابتدا میں عربی سے فارسی زبان (ایران) کے ذریعے ہندوستان تک پہنچی۔ داستان گوئی کی روایت قدیم ہندوستان میں بے حد مقبول تھی۔
اس کے علاوہ الجیریا، بوسنیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں بھی داستان گوئی تہذیب کا اہم حصہ تھی۔ اصل داستانیں فارسی زبان میں لکھی جاتی تھیں۔ گو ان داستانوں کا ایک بڑا مقصد شہنشاہوں کو تفریح مہیا کرنا تھا تاہم ان کو فنی کمال پر پہنچانے کا اصل فریضہ اور داد تو ان داستان گو افراد کو جاتی ہے جو سادہ رقم کی ہوئی داستان کو بہت سارے لوازمات سے آراستہ کرتے جس میں زبان کی چاشنی، لہجہ کی بناوٹ، مکالموں کی ادائیگی وغیرہ شامل ہوتی۔ بیٹھے بیٹھے یا ایک جگہ کھڑے ہوئے محض جسمانی اعضا کی حرکات و سکنات، آواز کا اتار چڑھاؤ، مرصع شاعری کے ملاپ سے جادو، عیاری، خیر و شر، حسن و طرب کی بزموں کا سماں گویا آج کے جدید تھیٹر کا سماں پیدا کرنا کہ سننے والے داستان گو کے اعجازِ بیاں سے کسی اور جہاں کے مزے لوٹنے لگتے۔
بیان کی ادائیگی میں خاص خیال رکھا جاتا کہ لہجہ اور زبان کو مقامی علاقے کے انداز میں ڈھالا جائے تاکہ داستان سے اپنائیت کا احساس ہو۔
یہ داستانیں 9ویں صدی سے 20ویں صدی تک تفریح کا مقبول ذریعہ رہیں۔ ہندوستان میں حمزہ نامہ یا داستانِ امیر حمزہ کو مغلیہ شہنشاہ اکبر اعظم کے عہد میں عروج حاصل ہوا۔ اکبر کے دربار کے 9 رتنوں میں شامل فیضی اور ابوالفضل نے ان داستانوں کو جمع کیا۔ اس طرح حقیقت تو یہ ہے کہ ان داستانوں کو تصویری پیرہن سے آراستگی کا فریضہ اکبر کے دور کا اہم کارنامہ ٹھہرا کہ جب ان کی تصویری عکاسی کپڑے پر مبنی 1400 تصاویر سے کی گئی۔ اس کا بنیادی کام ایرانی فنکار سید علی اور خواجہ عبدالصمد کی نگرانی میں ہوا۔
کئی جلدوں پر مبنی ان تصویری فولیو کی تکمیل 15 سال (1562-1577) میں انجام پائی۔ تصاویر کی پشت پر عربی نستعلیق رسم الخط میں داستان کا متن ہوتا اور دوسری جانب منظر کی تصویر کشی۔ 2 افراد اس کو پکڑتے اور داستان گو بیان کر دیتا۔ اس طرح گویا یہ اس زمانے کا کوئی ٹی وی ڈرامہ ہوتا۔ ان تصاویر کو البرٹ اور وکٹوریا میوزیم میں محفوظ کرنے کا سہرا ڈون کلارک کے سر ہے۔ افسوس کہ نہ صرف ہم نے اس فن کو کھویا بلکہ اس کے بچے کھچے آثار کو بھی اپنا ثقافتی ورثا بنا کر محفوظ نہ رکھ سکے۔
19ویں صدی میں فن داستان گوئی کو وسعت ملی
18ویں اور 19ویں صدی میں فارسی زبان سے اردو میں منتقلی کے بعد داستان گوئی کے اس فن کو مزید وسعت ملی اور اس کا اثر ادب کی دوسری اصناف پر بھی مرتب ہوا۔ سنہ 1880 کے بعد تقریباً 2 دہائیوں تک داستانِ امیر حمزہ لکھنؤ کے گلی کوچوں اور نکڑوں میں چھائی رہی اور یہی حال دہلی میں بھی اس کی مقبولیت کا تھا تاہم اس پرانے فن میں سماجی ڈھانچے کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ زوال پیدا ہونے لگا۔ اس کی ایک وجہ غالباً داستانوں میں بزمِ حسن و طرب کا ذکر جو اسلامی ثقافت میں معیوب سمجھا جاتا تھا تو دوسری جانب ریفارمسٹ تحریک تھی جو سنہ 1857 کے بعد کے دور میں پیدا ہوئی۔ اس کے تحت ان داستانوں کو بوسیدہ فن کی شکل قرار دیا گیا۔
ایک بڑا داستان گو جو پان چھالیہ بیچنے پر مجبور ہوا
پھر ایک وہ وقت بھی آیا جب صدی کے آخری داستان گو میر باقر علی کو 20ویں صدی کے اواخر میں دہلی کے بازار میں پان، چھالیہ بیچتے دیکھا گیا۔ یہ وہ فنکار تھا جو امرا کی پیشکش کو ٹھکرا دیتا تھا۔ وہ اپنے ساتھی فنکاروں کی دنیا سے رخصتی کے بعد اپنے گھر میں داستان گوئی کی محفل منعقد کرتا۔ میر باقر کی آواز میں بیان کی ہوئی 3 منٹ کی داستان آج بھی تبرکا لندن کی لائبریری کے خزینہ میں قیمتی اور نایاب اثاثے کی صورت میں محفوظ ہے۔
بعد کے سالوں میں داستان گوئی کی جگہ بائی اسکوپ اور تھیٹر نے لے لی اور یوں مشینی دوڑ میں یہ فن کہیں کچل کر وقت کی دھول میں دب گیا اور بالآخر 20ویں صدی میں اپنے اختتام کو پہنچا۔ تقسیم ہند کے بعد بہت سے سنجیدہ ادیبوں مثلاً محمد حسن عسکری، پروفیسر سہیل احمد خان اور گیان چند جین نے ان داستانوں کی تہوں میں چھپی ہوئی معنویت اور حقیقت پسندی کے گوہر تلاش کیے اور اپنے تحقیقی مضامین میں اس کا ذکر کیا۔
داستان امیر حمزہ
آج کے عہد کے ادیب شمس الرحمن فاروقی جن کا شمار جدید ادب کے حامیوں میں ہوتا ہے نے 46 ضخیم جلدوں پر مشتمل ’داستانِ امیر حمزہ‘ کو یکجا کیا۔ اس کی ہر جلد تقریبا 900 صفحات پر مشتمل ہے۔
عصر حاضر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کی ایجاد نے انسانی زندگی بدل کے رکھ دی ہے۔ انسان انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ساتھ اتنا مشغول ہوا کہ داستان گوئی،اخبار بینی اور کتابوں کا مطالعہ ایک پہیلی بن کے رہ گئی۔
چند سال قبل ہی روزانہ اخبار کے آنے کا بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار رہتا تھا اور لوگ بازاروں سے طرح طرح کی ادبی کتابیں خرید کر ان کا مطالعہ کرتے تھے۔ پچھلے 30 برسوں میں یہ عمل گھٹتا ہی گیا اور بات یہاں تک آ گئی کہ آج کی نوجوان نسل داستان گوئی، اخبار بینی اور کتابوں کے مطالعے سے بالکل بے خبر ہے اور محض موبائل فون اور انٹرنیٹ کے قیدی بن کر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
تاہم دور جدید کے داستان گو اس قدیم فن کو دوبارہ جلا بخش رہے ہیں اور دنیا میں ہر اس جگہ اپنی داستان گوئی کا فن پیش کر رہے ہیں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
والڈ سٹیز اینڈ ہیریٹج ایریاز اتھارٹی
اس حوالے سے والڈ سٹیز اینڈ ہیریٹج ایریاز اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ٹورازم اصغر حسین نے کہا کہ داستان گوئی یا قصہ خوانی یہ ایک صدیوں پرانی روایت ہے جسے اب دوبارہ زندہ کیا جارہا ہے۔
اصغر حسین کا کہنا ہے کہ والڈ سٹیز اینڈ ہیریٹج ایریاز اتھارٹی صدیوں پرانی داستان گوئی کی اس صنف کو زندہ کرنے کے لیے بھرپور کاوشیں کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ والڈ سٹیز اینڈ ہیریٹج ایریاز اتھارٹی نے اب اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور داستان گوئی جیسی محفلوں کا انعقاد کر رہا ہے۔
دریں اثنا ڈپٹی خزانچی(آئی ٹی یو) محمد عابد خان نے کہا کہ داستان گوئی اردو ادب کی ایک صنف ہے جو معدوم ہوتی جا رہی تھی جو ہماری نوجوان نسل کو زیادہ نہیں پتا۔
داستان گو بدر خان نے بتایا کہ کسی بھی علاقے کی لوک کہانیاں صرف کہانیاں نہیں ہیں بلکہ یہ علاقے کی تاریخ، ایک زمانے کا بیانیہ اور معاشرے میں تربیت پانے، سیکھنے اور کچھ کرنے کے لیے رہنمائی، زندگی گزارنے کے لیے مہارتیں سیکھنے کا ذریعہ، مقامی دانش، تجربات کے حاصل ہونے کے ساتھ اپنی تاریخ سے جڑے رہنے کا ایک وسیلہ بھی مافوق الفطرت خیالات، علاقے میں پائے جانے والے تصورات، توہمات، پرانے زمانے میں زندگی گزارنے کے طور طریقے، سوچنے کا طریقہ یا انداز یہ سب ان لوک کہانیوں میں بیاں ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کہانیوں میں نہ صرف بچے بچیوں کی اخلاقی تربیت بلکہ اپنے علاقے، خاندانی ادب اور معاشرتی اقدار سے جانکاری ہوتی بلکہ قومی غیرت اور حب الوطنی بھی ان کہانیوں سے ہی سکھائے جاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کا ادراک اچھے برے کی تمیز بھی ان کہانیوں کے ذریعے ہوتی جس میں اٹھنے، بیٹھنے سے لے کر بولنے تک کے آداب شامل ہوتے۔