’ہوگا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے؟‘

بدھ 14 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بر صغیر میں اردو اور فارسی کے عظیم شاعر مرزااسد اللہ خان غالب کا یوم وفات جمعرات 15 فروری کومنایا جائے گا۔

ادبی حلقوں کے مطابق اس سلسلے میں ملک بھر میں مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جائے گا جن میں مرزاغالب کی ادبی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔

مرزا غالب کا اصل نام اسد اللہ خان بیگ تھا۔ وہ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن میں ہی والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا جس کے بعد ان کی پرورش ان کے چچا نصراللہ بیگ نے کی تھی۔

غالب نے کم عمری میں ہی شاعری کا آغاز کیا۔ وہ زیادہ تر فارسی میں شعر کہا کرتے تھے۔ ان کی اردو غزلیں محبت اور خوبصورتی کا حسین امتزاج تھیں۔ انہیں جدید اردو کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ مرزا غالب 15فروری 1869 کو انتقال کر گئے تھے۔

اردو شعر و ادب کے ماتھے کے جھومر مرزا غالب کو ممتاز علمی وادبی شخصیات کا خراج عقیدت

اردو کے عظیم شاعر میرتقی میر کے مصداق ’دلی جو ایک شہر تھا عالم انتخاب، رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے‘

اسی شہر انتخاب دلی کی ایک منتخب ترین آواز مرزا غالب تھے، برصغیر کے ممتاز شاعر اور گیت نگار گلزار نے کہا تھا ’اسی بے نور اندھیری سی گلی قاسم سے، ایک ترتیب چراغوں کی شروع ہوتی ہے، ایک قرآن سخن کا صفحہ کھلتا ہے، اسد اللہ خاں ’غالب‘ کا پتا ملتا ہے۔

دلی کی گلی میں مرزا اسد اللہ خان غالب کا پتا تو ملتا ہے لیکن آفاقی شاعر غالب کا پتا لگانا اتنا آسان کام بھی نہیں، جانے کتنی صدیاں کھوجنی پڑتی ہیں غالب کو جاننے اور اس قرآن سخن کو سمجھنے کے لیے جو غالب پہ مانند وحی القاہوا کرتا تھا۔ جس غالب بارے میں سر سید احمد خاں نے کہا تھا کہ میں اپنے اعتقاد میں غالب کے ایک حرف کو بہتر ایک کتاب سے اور ان کے ایک گل کو بہتر ایک گلزار سے جانتا ہوں وہی غالب عالم بے نیازی میں فرماتے ہیں کہ ’پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے، کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا‘۔

غالب کی شاعری اور نثر آج بھی سکہ بند ہے، پروفیسرانورمسعود

15 فروری کو مرزا غالب کی برسی کی مناسبت سے پاکستان کے نامور اردو، پنجابی اورفارسی کے شاعر پروفیسر انور مسعود نے کہا کہ مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب کی وفات1869میں ہوئی 200 سال گزرنے کے باوجود غالب کی شاعری اور نثر آج بھی سکہ بند ہے۔ رحمان بجنوری نےاپنی کتاب محاسن غالب میں کہا تھا کہ برصغیر کی 2 کتابیں ایسی ہیں جن کو میں الہامی سمجھتا ہوں ان میں سے ایک دیوان غالب ہے، میں دیوان غالب کے حوالے سے بجنوری صاحب کی رائے سے متفق ہوں۔ ہمارے 2 بڑے شاعر غالب اور اقبال نے اردو اور فارسی میں کمال درجے کی شاعری کی ہے۔

مرزا اسداللہ غالب جس طرح اردو شاعری میں غالب ہیں، اس طرح فارسی زبان میں بھی انہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے، اقبال نے غالب کو گوئٹے کا ہم پلہ قرار دیا ہے، میرے خیال میں غالب آفاقی سچائیوں کا شاعر ہے اسی لیے غالب نے مشکل ترین سے آسان ترین شاعری کی، جس کی وجہ سے وہ آج بھی اُتنا ہی مقبول ہے جتنا اپنے عہد میں تھا۔غالب کی شہرت کی ایک بڑی وجہ ان کی وہ شاعری ہے جو سہل ممتنع (آسان) ہے۔

اُن کے ہزاروں شعر عام آدمی کو بھی آسانی سے سمجھ میں آجاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ غالب کا کلام برصغیر کا عظیم سرمایہ ہے جو آنے والے دور میں بھی اپنی ہمہ جہت خوبیوں کے باعث قائم و دائم رہے گا۔

غالب اردو شعر و ادب کے ماتھے کا منفرد اور پرکشش ترین جھومر ہے، ڈاکٹر راشد حمید

ادارہ فروغ قومی زبان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹراور ماہر اقبالیات ڈاکٹر راشد حمید نے کہا کہ غزل اردو کی نمائندہ ترین صنفِ سخن ہے اور غزل کا نقطہِ عُروج غالب ہے۔ غالب شعر لکھے تو غزل اور نثر لکھے تو آنے والا اردو نثر کا ہر عہد غالب سے ہی شناخت پاتا ہے۔

اور تو اور اگر اردو کے دامن میں غالب نہ ہوتا تو اقبال بھی اردو کے اثاثے میں اتنے بڑے عبقری، نابغے اور عظیم تخلیق کار کی حیثیت سے شامل نہ ہوتے۔ غالب جتنا بڑا تخلیق کار اور شاعر ہے اسی قدر خوش قسمت بھی ہے کہ اُسے غالب شناس کہلانے والے بہت عظیم نقاد میسر آئے جو شاید کسی بھی دوسرے تخلیق کار کو نہیں مل سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب اردو شعر و ادب کے ماتھے کا منفرد اور پرکشش ترین جھومر ہے۔ لہذا اس کی عظمت کے بیان کے لیے تلازمے، تشبیہات، استعارے اور لفظ ہر صورت کم پڑ جاتے ہیں اور کچھ کہنے والے کو عجز کے اظہار میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے۔

غالب دو تہذیبی ادوار کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے، ڈاکٹر نجیبہ عارف

چیئرپرسن اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آبادپروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کہا کہ غالب اُردو شاعری کی تاریخ کا نا گزیر جزو ہی نہیں اس کا امتیازی نشان اور بین الاقوامی سطح پر اس کی شناخت اور پذیرائی کا وسیلہ بھی ہے۔ غالب دو تہذیبی ادوار کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے ایسے عبوری دور میں زندگی بسر کی جب ہندوستان کی مرکزی تہذیبی شناخت کے خدوخال بکھر رہے تھے اور ایک نئی اور سراسر مختلف تہذیب کے نقوش ابھر رہے تھے۔

کشمکش اور بے یقینی کے اس عہد میں غالب جیسا حساس فنکار جس داخلی و وجودی کرب سے گزرا اور جس طرح اس نے اظہار کو اپنی نظم و نثر میں اتارا، وہ گویا ایک عہد کی جذباتی ، نفسیاتی اور سماجی تاریخ مرتب کرنے کے مترادف ہے۔ غالب کی ادبی حیثیت کے کئی پہلو ہیں مگر ہر پہلو کو اسی تہذیبی کشمکش کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ غالب کا ادبی سرمایہ اردو ادب کے لیے سرمایہ افتخار ہے۔

غالب علیٰ کُلِ غالب ہے، اختر رضا سلیمی

معروف ناول نگار اور شاعر اختر رضا سلیمی نے کہا کہ جہاں تک اردو غزل کی بات ہے غالب علیٰ کُلِ غالب ہے۔ وہ کل بھی غالب تھا اور آج بھی غالب ہی ہے۔ ہمارے ہاں شاعری کو قدیم و جدید میں بانٹنے کا چلن بہت عام ہے۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ غالب اپنی شاعری میں آج بھی اتناجدید ہے کہ جدید سے جدید تر شاعر بھی اس کی گرد کو نہیں پہنچ پا رہا۔

غالب نے گنجینہ معنی کا جو طلسم تقریباً 200 سال پہلے باندھا تھا، اردو غزل کے قارئین ہی نہیں غزل کے شاعر بھی آج تک اس کے اسیر ہیں۔ یہاں تک کہ اقبال جیسا عظیم شاعر بھی اسے مخاطب کر کے یہ کہنے پر مجبور ہوا ۔ ’فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا۔۔۔ہے پرِ مرغ تخیل کی رسائی تا کجا‘۔ وہ نہ صرف عظیم شاعر تھے بلکہ میری نظر میں وہ عظیم نثر نگار بھی تھے۔ ان کے نجی خطوط نے اردو نثر میں جو طرح ڈالی بعد میں اسی کا چلن ہوا۔ اس سے قبل جس نوع کی مسجع اور مقفع نثر لکھی جارہی تھی ،وہ نہ تو علمی موضوعات کے لیے موزوں تھی اور نہ فکشن کے لیے۔ آج اردو میں جو نثر لکھی جارہی ہے، چاہے وہ افسانوی ہو یا غیر افسانوی، اس کا باوا آدم بھی مرزا غالب ہی ہے۔

غالب ہر دور کے لیے نئے معانی کے ساتھ سمجھے جاتے رہیں گے جبکہ معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ غالب دنیا کا واحد شاعر جو جب سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزہ دیتاہے۔ اس کے متعلق معروف ناقد شمیم حنفی لکھتے ہیں کہ نثر و نظم میں کئی اعتبار سے غالب استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس امتیاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دوسرے کسی مصنف نے اتنا کم لکھ کر ایسی مستحکم اور مستقل جگہ اپنے لیے نہیں بنائی جیسی کہ غالب نے۔

معروف تاریخ نویس ولیم ڈیلرمپل نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ غالب شیکسپیئر جیسے دوسرے عظیم شاعروں کی طرح وہ ہر زمانے کے لیے ہیں۔ جب تک زمانہ قائم ہے غالب ہر دور میں ہر نسل میں موجود رہے گا، سمجھا، پڑھا، سوچا، بولا اور سراہا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp