معاشرے کے چہرے سے نقاب الٹنے والے سعادت حسن منٹو

جمعرات 18 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

منٹو ایک ایسا قلم کار تھا جو اخبار و رسائل کے دفاتر میں بیٹھ کر مدیر کی خواہش پر منٹوں میں ایک شہ کار تحریر لکھ دیتا تھا۔ اردو ادب میں اُسے ہم سعادت حسن منٹو کے نام سے جانتے ہیں۔

شاید وہ اردو ادب کا واحد لکھاری تھا جو تخلیق کے لازمی جُزو  ’ آمد اور آورد ‘ کے جَھنجَھٹ سے آزاد تھا، جو لکھ دیتا تھا اُس میں قطع وبرید کی گنجائش تک باقی نہیں رہتی تھی۔

جمعرات 18 جنوری کو اس عظیم لکھاری کی 69 ویں برسی منائی گئی ہے۔منٹو  ’ خود پر لکھا ہوا خاکہ‘  میں کہتے ہیں کہ ہم اکٹھے ہی پیدا ہوئے اور خیال ہے کہ اکٹھے ہی مریں گے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے اور سعادت حسن مر گیا جس کی ہم 69 ویں برسی منا رہے ہیں لیکن منٹو آج بھی زندہ ہے۔

منٹو اپنے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’ میری زندگی اک دیوار ہے جس کا پلستر میں اپنے ناخنوں سےکھرچتا رہتا ہوں‘۔ کبھی چاہتا ہوں کہ اس کی تمام اینٹیں پراگندہ کر دوں، کبھی یہ جی میں آتا ہے کہ اس ملبہ کے ڈھیر پراک نئی عمارت کھڑی کر دوں‘۔

منٹو کے ان جملوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ اُن کے بعض ناقدین کہتے ہیں کہ آخر منٹو کو طوائف ہی کیوں ’ ہانٹ ‘کیا کرتی تھی، تو وہ اپنےلکھنے کے اندازپر خود ہی یہ وضاحت کر دیتےہیں۔

’ کہ ایک چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی ‘ ۔ شاید منٹو طوائف کے کردار کو ایک مؤثر ہتھیار بنا کرنہایت چابک دستی اورفنکاری کے ساتھ معاشرے کوآئینہ دکھا کر معاشرے کے چہرے سے پردہ چاک کیا کرتےتھے، جس میں انہیں خاصی کامیابی بھی حاصل ہوتی تھی۔

 منٹوبہت بے باکی اور بغیر کسی خوف کے لکھا  کرتے تھے۔ ان کی تحریر کی یہی ایک خوبی ہے۔ وہ انسانی تنگ دلی، عیاری، سطحیت اور سماج کے اندھیرے و غلیظ گلیاروں کے بارے میں بغیر کسی تبدیلی کے ویسے ہی لکھتے ہیں جیسا کہ وہ ہے۔یہی چیز ان کی کہانیوں کو مزید حقیقی بنا دیتی ہے۔

 اردو کی معروف مصنفہ عصمت چغتائی نے اپنی یادداشت ’ کاغذی ہے پیرہن‘ میں منٹو کی تصنیفات کے بارے میں لکھا تھا کہ منٹو اگر (اپنی تصنیفات میں) کیچڑ اچھالتے ہیں تو اس سے وہ گندگی دکھائی دیتی ہے اور ساتھ ہی اس گندگی کو صاف کرنے کی ضرورت بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔

منٹو پر اپنی بے باک کہانیوں کے لیے 6 مرتبہ فحاش نگاری کا مقدمہ چلا لیکن ہر بار انہیں باعزت بری کیا گیا۔ خود پر فحش نگاری کے مقدمے کی سماعت کے دوران منٹو نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ ’ ٹھنڈا گوشت ‘ کہانی کا مقصد انسانوں کو یہ بتانا ہے کہ جب وہ وحشیانہ سلوک کرتے ہیں تو وہ اپنی انسانیت اور انسانی ذمہ داری سے الگ یا آزاد نہیں ہو جاتے۔

وہ انسانیت ان کے جانور پر کبھی نہ کبھی بھاری پڑتی ہی ہے۔ آج جب ہم روزانہ عصمت دری کے ظالمانہ واقعات سے متعلق خبروں میں پڑھتے ہیں تو ’ ٹھنڈا گوشت‘ ، ’کھول دو‘ اور ’ لحاف ‘  جیسی  کہانیاں اس سماج کی انسانیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔

منٹو اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ منٹو کی افسانہ نگاری 2 متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد خدا انہیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان 2 پاٹوں کے اندر پِس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہو گا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔

منٹو جھوٹ بقدرِ کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے۔ اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔وہ اَن پڑھ ہے۔ اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ نہیں کیا۔ فرائڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری ۔

ہیگل کا وہ صرف نام ہی جانتا ہے۔ ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ، میرا مطلب ہے تنقید نگار، یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام مفکروں سے متاثر ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال سے متاثر ہوتا ہی نہیں۔

وہ سمجھتا ہے کہ سمجھانے والے سب ’چغد‘ ہیں۔ دنیا کو سمجھانا نہیں چاہیے اس کو خود سمجھنا چاہیے۔خود کو سمجھا سمجھا کر وہ ایک ایسی سمجھ بن گیا ہے جو عقل و فہم سے بالاتر ہے۔

بعض اوقات ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے کہ مجھے ہنسی آتی ہے۔ میں آپ کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو، جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے ہیں، بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا پاانداز ہے جو خود کو جھاڑتا پھٹکتا رہتا ہے۔(رسالہ نقوش، لاہور۔ شمارہ 45/46۔ بابت: ستمبر، اکتوبر1954)

سعادت حسن منٹو کی شناخت اُردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار کی حیثیت سے تو ہوتی ہی ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ نو عمری اور جوانی سے ہی فلموں میں بھی ویسی ہی دلچسپی رکھا کرتےتھےجیسی کہ ادب سے۔

2012 میں سعادت حسن منٹو کی پیدائش کا صد سالہ جشن منایا گیا تو کئی فلم سازوں نے منٹو کی زندگی پر مبنی فلم بنانے کی کوشش کی مگر اس ضمن میں پہلا قدم سرمد سلطان کھوسٹ نے اُٹھایا۔انہوں نے شاید ندیم سے فلم کا سکرپٹ لکھوایا اور ایک نجی ٹی وی کے تعاون سے11 ستمبر 2015 کو منٹو کی زندگی پر پہلی فلم ریلیز کر دی ۔

منٹو کو دراصل امرتسر سے فلموں کا شوق پیدا ہوا جو بالی وڈ کی دنیا تک پھیل گیا تھا۔ 1933 میں وہ باری علیگ کے اخبار ’روزنامہ مساوات‘ سے وابستہ ہوئے اور اِسی اخبار میں فلمی کالم لکھنے لگے۔ 1936 میں منٹو بمبئی جاپہنچے، اُس وقت بالی وڈ کے نام سے ہندوستانی فلم صنعت کا درجہ اختیار کر رہی تھی۔

وہاں انہیں نذیر لدھیانوی نے اپنے معروف رسالے ’مصور‘ کی ادارت کی دعوت دی تو یوں منٹو مصور میں تنقیدی مضامین اور فلموں پر تبصرے لکھنے لگے۔ مصور کے توسط سے منٹو نے اپنی بے باک تحریروں سے فلمی صحافت کا ایک نیا باب رقم کیا اور بہت جلد فلمی دنیا میں نامور قلم کار کے طور پر بھی سامنے آگئے۔انہوں نے ایک فلم کمپنی میں متعدد فلمی کہانیوں کی نوک پلک سنوارنے اور مکالمے لکھنے کا کام بھی احسن طریقے سے سرانجام دیا اور ہندوپاک کی متعدد فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔یوں اُن کی فلمی صنعت سے وابستہ ہونے کی ایک دیرینہ خواہش پوری ہوگئی تھی۔

1941 میں منٹو دہلی واپس چلے آئے اور آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔ گو کہ ریڈیو کا ماحول فلم سے یکسر مختلف تھا مگر منٹو نےیہاں بھی اپنے نام کی دھاک بٹھا دی ۔دہلی میں بھی منٹو نے فلمی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہیں انہوں نے مرزا غالب کی زندگی پر ایک فلم کا سکرپٹ لکھا جو بعد میں راجندر سنگھ بیدی کے مکالموں کے ساتھ پردہ سکرین پر پیش ہوا، لیکن وہ 1942 میں واپس بمبئی آ گئے اور ایک مرتبہ پھربالی وڈکی دنیا سے منسلک ہو گئے۔

1947 میں منٹو لاہور آ گئے۔لاہور آکر انہوں نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ فلمی کہانیاں بھی لکھیں۔انہوں نے بہت سی فلمی شخصیات کے خاکے بھی لکھے جو اُن کے خاکوں کے مجموعوں ’گنجے فرشتے‘ اور ’لاؤڈ سپیکر‘ میں شامل ہیں۔

منٹو کے کئی افسانےفلم کے پردہ سکرین پر بھی منتقل ہوئے، جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔21 ستمبر 2018 کو انڈیا میں مشہور ہدایت کارہ نندتا داس کی فلم منٹو نمائش کے لیے پیش ہوئی ،جس میں منٹو کا مرکزی کردار نواز الدین صدیقی نے ادا کیا۔ فلم انڈیا میں باکس آفس پر توکامیاب نہ ہو سکی لیکن باکس آفس پر ناکامی کے باوجود فلمی ناقدین نے اس فلم کو بہت سراہا۔

غیر اردو داں طبقہ اردو شاعری کو اگر غالب کے حوالہ سے جانتا ہے تو فکشن کےلیے اس کا حوالہ منٹو کو تسلیم کیا جاسکتا ہے۔منٹو کی زندگی ان کے افسانوں کی طرح نہ صرف دل چسپ بلکہ مختصر بھی تھی۔ محض 42 سال 8 ماہ اور4 دن کی چھوٹی سی زندگی کا بڑا حصہ منٹو نے اپنی شرائط پر، نہایت لاپروائی اور لاابالی پن سے گزارا۔ انہوں نے زندگی کو اک بازی کی طرح کھیلا اور ہار کر بھی وہ جیت گئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp