’ہاں! ہم ٹی بی کا خاتمہ کر سکتے ہیں‘ یہ اس بیماری کے خلاف آج (24 مارچ) کو منائے جانے والے عالمی دن کا خاص موضوع ہے۔ ’ڈبلیو ایچ او‘ نے اس پیغام کے ذریعے ٹی بی کے خلاف اعلیٰ سطح قائدانہ کردار، بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور اہم تجاویز پر عملدرآمد کی رفتار تیز کرنے پر زور دیا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 24 مارچ کو انسدادِ ٹی بی کا دن منایا جاتا ہے، یہ مرض ایک ’خاموش قاتل‘ بن کر ہزاروں جانیں لے رہا ہے۔ پاکستان میں ہر سال ٹی بی کے 6 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں سے کم از کم 27 ہزار ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ اقسام کے بتائے جاتے ہیں جبکہ لگ بھگ 40 ہزار مریض انفیکشن سے انتقال کرجاتے ہیں۔
تپ دق (ٹی بی) کو کورونا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے مہلک متعدی بیماری سمجھا جاتا ہے، تاہم ٹی بی قابل علاج ہے۔ وزارتِ صحت کے مطابق بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ٹی بی کا مرض مکمل طور پر ختم نہیں ہوا، پاکستان دنیا میں پانچویں ممالک میں شامل ہے جہاں ٹی بی کا مرض پایا جاتا ہے، پاکستان میں ہر سال 6 لاکھ 8 ہزار افراد اس موذی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ٹی بی صحت کا ایک اہم عالمی چیلنج ہے، وزیر اعظم شہباز شریف
ٹی بی کے عالمی دن کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ٹی بی صحت کا ایک اہم عالمی چیلنج ہے اور اس سے بچاؤ اور کنٹرول کے اقدامات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے۔ حکومت نے اس بیماری سے نمٹنے کے لیے مختلف پروگرام اور پالیسیاں نافذ کی ہیں۔
انہوں نے صحت کے عالمی ایجنڈے میں ٹی بی کے خاتمے کو ترجیح دینے اور ٹی بی سے پاک دنیا کے لیے وسائل مختص کرنے پر بھی زور دیا۔ کہا کہ صحت کی معیاری خدمات تک رسائی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے اور جس طرح وہ اس مقصد کے لیے کوشاں ہے، اس میں نجی شعبے اور عالمی شراکت داروں کا کردار قابل تعریف ہے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے ملک میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانے کے اقدامات کی حمایت کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور تمام شراکت داروں، تنظیموں، صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد اور افراد پر زور دیا کہ وہ پاکستان سے ٹی بی کے خاتمے کے لیے حکومت کی کوششوں میں متحد ہوں۔
ملک میں متعدی بیماریوں میں سب سے زیادہ اموات ٹی بی سے ہوتی ہیں، وزارت صحت
نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ اے) کے مطابق پاکستان میں متعدی بیماریوں سے ہونے والی اموات سب سے زیادہ تپ دق (ٹی بی) کے باعث ہوتی ہیں اور ملک ٹی بی سے متاثرہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ایک دہائی قبل پاکستان ٹی بی سے متاثرہ ممالک میں چھٹے نمبر پر تھا لیکن 2014 کے بعد پانچویں نمبر پر آگیا، یعنی ملک میں یہ بیماری مزید بڑھ گئی۔
ٹی بی سے ملک بھر میں سالانہ 50 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور اس سے اموات کی شرح دیگر پھیلنے والی بیماریوں سے زیادہ ہے۔اس وقت وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹی بی پر قابو پانے کے لیے مختلف پروگرامات جاری ہیں جب کہ عالمی سطح پر بھی اس بیماری کی روک تھام کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن کورونا کی وبا، ماحولیاتی تبدیلیوں اور دنیا بھر میں ہونے والی جنگوں کی وجہ سے اس بیماری کا بروقت علاج اور تشخیص نہ ہونے سے اس میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان ٹی بی سے متاثرہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، اقوام متحدہ
ٹی بی کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ (یو این) کی سربراہی میں نیویارک میں ہونے والے عالمی اجلاس میں وزارت قومی صحت کی جانب سے بتایا گیا کہ پاکستان ٹی بی سے متاثرہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان‘ (اے پی پی) کے مطابق اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر می تپ دق کے خلاف جنگ سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس میں سیکریٹری وزارت قومی صحت، خدمات، ضوابط اور رابطہ نے عالمی برادری کو بیماری پر قابو پانے کے لیے کی جانے والی حکومتی کوششوں سے آگاہ کیا۔
کانفرنس کے دوران خطاب کے دوران وزارت قومی صحت کے نمائندے نے ٹی بی پر وبائی امراض کے منفی اثرات کو کم کرنے اور انہیں ختم کرنے کے لیے فنڈنگ میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا۔ عالمی برادری کو بتایا گیا کہ پاکستان ٹی بی سے متاثرہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جب کہ ملک میں پھیلنے والی بیماریوں سے ہونے والی سب سے زیادہ اموات اسی بیماری کی ہوتی ہیں۔
دنیا میں تپِ دق (ٹی بی) سے ہر سال 13 لاکھ اموات، ڈبلیو ایچ او
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ تپ دق (ٹی بی) اب بھی ہر سال 13 لاکھ جانیں لے رہی ہے جس کی روک تھام کے لیے مالی وسائل کی فراہمی میں اضافہ کرنا ہو گا۔
‘ڈبلیو ایچ او’ نے برازیل، جارجیا، کینیا اور جنوبی افریقہ میں لیے گئے ایک جائزے کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی بی پر قابو پانے کے لیے خرچ کیے جانے والے ہر ایک ڈالر کے عوض 39 ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ فائدہ مالی نوعیت کا ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے صحت عامہ میں نمایاں بہتری آتی ہے اور خاندانوں اور معاشروں پر ٹی بی کے تباہ کن اثرات کو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
ادارے کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ آج دنیا کے پاس اِس ہزار سالہ مہلک متعدی بیماری کا خاتمہ کرنے کے لیے علم، ذرائع اور سیاسی عزم موجود ہے۔ چاروں ممالک کے جائزے سے یہ سامنے آیا ہے کہ حقائق اور ٹی بی کی تشخیص اور روک تھام کے لیے ’ڈبلیو ایچ او‘ کے تجویز کردہ اقدامات کے تحت سرمایہ کاری سے تمام لوگوں کے لیے طبی خدمات کی فراہمی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔
دنیا کو اس بیماری پر قابو پانے میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور اندازے کے مطابق گزشتہ 23 برس میں 7 کروڑ 50 لاکھ زندگیوں کو ٹی بی سے تحفظ ملا ہے۔ تاہم اب بھی یہ مرض ہر سال 13 لاکھ جانیں لیتا اور لاکھوں لوگوں کی صحت کو متاثر کرتا ہے۔
بہت سی دواؤں کے خلاف مزاحم ٹی بی (ایم آر ڈی۔ٹی بی) صحت عامہ کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ 2023 میں صرف 40 فیصد لوگوں کو اس بیماری کے علاج تک رسائی حاصل ہوئی تھی۔ ٹی بی کی تشخیص کے نئے ذرائع، ادویات اور ویکسین کی تیاری میں پیش رفت کو سرمایہ کاری میں کمی کے باعث رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
انسدادِ ٹی بی کے عالمی دن کا آغاز
1882 میں امریکہ اور یورپ میں اچانک موت کے سائے ہر طرف منڈلانے لگے، ہر 7 میں سے ایک شخص ایک نئی اور انجانی بیماری میں مبتلا ہو کر ہلاک ہونے لگا تو سائنس دانوں نے اس بیماری کا کھوج لگانے کے لیے دن رات تجربات شروع کر دیے۔
آخر جرمنی کے شہر برلن کے ایک سائنس دان ڈاکٹر رابرٹ کوچ نے اس بیماری کاکھوج لگا لیا، ڈاکٹر مارکس کوچ نے 24 مارچ 1882 میں ’تپ دق‘ بیماری کے جرثومے ’مائیکرو بیکٹیریم ٹیوبر کلاسس‘ کی تشخیص کر لی جس کے بعد اس بیماری کا علاج دریافت کرنے کی راہیں ہموار ہو گئیں۔
ڈاکٹر رابرٹ کی اس کامیابی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال 24 مارچ کو تپ دق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس عالمی دن کے موقع پر ڈاکٹر رابرٹ کے کارنامے کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو تپ دق کے تباہ کن صحت، معاشرتی اور معاشی نقصانات کے بارے میں شعور بیدار کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس موذی مرض کو ختم کرنے کے لیے اپنی کوششیں مزید تیز کر سکیں۔
2030 تک دنیا سے تپ دق کا خاتمہ ممکن ہے، طبّی ماہرین
تپ دق یا پھیپھڑوں کا بیکٹیریل انفیکشن، دنیا کی مہلک ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ کئی دہائیوں کی پیش رفت کے بعد، ٹی بی کے کیسز ایک بار پھر بڑھ رہے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اگلے چند برسوں میں اس بیماری کو ختم کرنے کے لیے نئی ویکسین تیار ہو جائے گی۔
ٹی بی نے گزشتہ سال 16 لاکھ کے قریب افراد کی جان لی تھی۔ جنیوا میں اسٹاپ ٹی بی پارٹنرشپ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر لوچیکا ڈیتیو کے مطابق، کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں اس بیماری کے خلاف پیشرفت میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے۔
ڈیتیو نے بتایا کہ ہم نے کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے کئی برس کی محنت اکارت کر دی۔ ٹی بی کے لیے آلات، اسپتالوں اور ڈسپنسریوں اور کام کرنے والے عملے میں سے بہت سوں کو کووڈ سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس طرح تپ دق کو ختم کرنے کے لیے مختص وسائل کو کوویڈ کے انسداد اور علاج کے کے لیے وقف کردیا گیا تھا۔ امید ہے کہ اس دہائی میں اس بیماری پرقابو پا لیا جائے گا۔ عالمی ادارہ صحت نے بنیادی طور پر تشخیص، علاج اور ویکسین کی تیاری کے ذریعے 2030 تک ٹی بی کے خاتمے کا عالمی ہدف مقرر کیا ہے۔