کیا عمران خان کی گرفتاری پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے؟

جمعرات 16 مارچ 2023
author image

بتول راجپوت

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان آئی ایم ایف سے اب تک ڈیل فائنل نہیں کر سکا۔ پاکستانی حکام کو اس بار بھی امریکہ کی مدد درکار ہے تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط نرم کروائی جائیں اور آئی ایم ایف کا اعتماد بھی حاصل کیا جا سکے – پاکستان پر external financing کی مد میں دوست ممالک سے چھ سے سات بلین ڈالر لینے کا دباؤ بھی ہے۔ چین کے علاوہ کسی بھی اور ملک سے فنڈز لینے میں مشکلات ہیں۔

خدشہ ہے کہ رمضان سے پہلے مہنگائی 40 فیصد تک جائے گی۔ یہ پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح 33 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ world bank سے ۴۰۰ میلن ڈالر کا قرض ملنا آسان نہیں کیونکہ پاکستان نے tax ۔ GDP ratio کا ٹارگٹ پورا نہیں کیا۔ 170 بیلین کے نئے ٹیکیسز لگیں گے۔ گیس کنزیومرز کو مزید interest cost برداشت کرنی ہے۔
پاکستان کو سیلاب کی وجہ سے 1502 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ بحالی کے لیے 14.3 بلین ڈالر لگیں گے۔

آسٹریلین انسٹیٹوٹ آف انٹرنیشنل افیئرزکے مطابق اس سال ٹی ٹی پی کے حملوں میں 84 فیصد اضافہ ہوا۔ لیکن ان سب مسائل میں سے کوئی بھی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں- اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ عمران خان کب گرفتاری دیں گے؟ اور کیا حکومت عمران خان کو گرفتار کرنے سے ڈر رہی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: ہائی وے آف ڈیتھ اور قلعہ جنگی: کہانیاں دو، انجام ایک

عمران خان جیل نہیں جانا چاہتے اور نہ ہی وہ ایسا سمجھتے ہیں کے جیل جانے سے ان کا سیاسی قد بڑھے گا۔ مستقل لائم لائٹ میں رہ کر، سوشل میڈیا کی ریٹنگ کو سیاسی قد میں اضافہ سمجھ کر اور تقریر نما انٹرویوز دے کر وہ قیادت کا حق ادا کر دیتے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کے چاہنے والے بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ لیڈر ایسا ہی ہوتا ہے۔ عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر کون لیڈر بنتا ہے؟ بار بار نیا بیانیہ بدل کر کون لیڈر بنتا ہے؟ سیاسی مفادات کے لیئے ماضی میں ڈاکو سمجھے جانے والے کو پارٹی کا صدر بنا کہ کون لیڈر بنتا ہے؟ اپنے ہی اعلان کردہ معیار پر عمل نہ کر کہ کون لیڈر بنتا ہے؟ عدالتوں کے حکم نہ مان کے کون لیڈر بنتا ہے؟

عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے کہا کرتے تھے کی اگر میں غلط کروں تو مجھے بھی ہٹا دیں لیکن عمران خان نے امر باالمعروف کا راستہ اپنی سہولت کے مطا بق اپنایا۔ چاہے وہ اسلامی ٹچ ہو یا نیوٹرل کا جانور ہونا، سارے معیار اپنی سہولت کے مطابق بدل لیے۔ ایک طرف عمران خان ملک کے لئیے جان دینے کو کہتے ہیں دوسری طرف عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔

عجیب بات ہے کے ایسے انوکھے لیڈر کی شہرت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور جو ملک بچانے آئے تھے اب ووٹ بچا رہے ہیں۔ عمران خان کی سیاسی پوزیشن کو بہتر اس حکومت کے غلط فیصلوں نے بنا دیا۔ چاہے مفتاع اسماعیل اور اسحاق ڈار کی لڑائی ہو یا کسی نظریاتی فرد کا مریم نواز کو باس ماننے سے انکار، ضمنی الیکشن میں ہار ہو یا نواز شریف کی عدم دستیابی۔ پی ڈی ایم یہ سمجھنے سے قاصر رہی کی ملک کے ساتھ کرنا کیا ہے؟

مزید پڑھیں: اسلاموفوبیا: دو سیکولر ریاستیں مگر کہانی ایک!

اب یہ واضح ہے کہ حکومت الیکشن نہیں چاہتی کیونکہ ن لیگ کو معلوم ہے کہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملے گا۔ انٹیلیجنس ایجنسیز کی رپورٹس، وزارت خزانہ کی فنڈز دینے سے معذرت اور صرف quick response force کے ساتھ الیکشن کا انعقاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کی کچھ اور عناصر بھی الیکشن نہیں کرانا چاہتے۔ حکومت عمران خان کی گرفتاری کا بوجھ لینا بھی نہیں چاہتی اور چاہتی ہے کہ عمران خان گرفتار بھی ہوں۔

سہیل وڑائچ کی کتاب غدار کون میں نواز شریف نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر پاکستان میں سیاست آسان نہیں۔ میں نے ان کا جملہ حرف بہ حرف نہیں لکھا لیکن اس کا مفہوم درست لکھا ہے۔ نواز شریف اب لاکھ انقلابی سہی لیکن کیا مریم نواز کی جنرل باجوہ سے زیادہ جنرل فیض پہ تنقید سیاسی مصلحت کے تحت ہے؟ کیا ملک میں انتشار اس لیے ہے کہ political کو A- political ہضم نہیں ہو رہا اور political چاہتا ہے کی A- political… political ہی رہے۔

کیا پاکستان میں سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے بغیر ملکی فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ تاریخ اس کا جواب نفی میں دیتی ہے؟ شاید کچھ لوگوں کو functionalism کی تھیوری پرانی اور بوسیدہ لگے لیکن حقیقت یہی ہے کی ہر ادارہ اپنا کام کرے گا تو ملک چلے گا۔ میڈیا کو کنٹرول کرنے سے آر ٹی ایس بٹھانے اور نئی نئی سیاسی پارٹیاں پرانے لوگوں سے بھرنے سے نہیں چلے گا۔

اس وقت ملک کو عمران خان کی گرفتاری سے زیادہ معاشی استحکام کی ضرورت ہے اور اگر گرفتاری قانون کے مطابق بنتی ہے تو حکومت وقت برباد کیے بغیر اسے عمل میں لائے اور اپنی پالیسیز اور اصلاحات سے ووٹر کو قائل کرے- عوام کو جلسوں میں ججز کی تصویریں نہیں چاہیں بلکہ مسائل کا حل اور مستقبل کی روشن سوچ چاہیے۔

اور آخر میں یہ یاد دلا دوں کے آپ کے سب سے بڑے دشمن اور بھارت میں مسلمانوں پہ ظلم کرنے والے مودی نے توشہ خانہ سے کبھی کوئی تحفہ اپنے پاس نہیں رکھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بتول راجپوت صحافی ہیں اور سچ ٹی وی پر "دی ٹاک شو" کے نام سے پروگرام کرتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp