سابق صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں جب پی ٹی وی کی اینکرز اور اداکاراؤں کو دوپٹہ اوڑھنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس وقت کئی اختلافات سامنے آئے تھے۔
مزید پڑھیں
کسی نے ٹی وی پر کام کرنا ہی موقوف کردیا تو کسی نے حکم نہ مان کر اپنے ڈراموں اور شوز کا نقصان اٹھایا۔ ایسا ہی واقعہ اداکارہ صبا حمید کے ساتھ بھی پیش آیا تھا اور صورتحال مشکل ہوگئی تھی جب ان کے ایک ڈرامے کی نصف شوٹنگ ہوچکنے کے بعد دوپٹے کا حکم آگیا۔
صبا حمید ایک لیجنڈری اداکارہ اور ہدایت کارہ ہیں۔ وہ بہت ذہین اور تخلیقی صلاحیتوں کی حامل ہیں۔
انہوں نے ہمیشہ اپنی رائے کو سختی کے ساتھ پیش کیا ہے اور وہ کبھی حق بات کہنے سے نہیں ڈرتیں۔ وہ سیاسی طور پر بھی باخبر ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ملک، ثقافت اور ہر دوسرے شعبے میں جمہوریت کی اہمیت کو محسوس کیا ہے۔
صبا حمید نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں عفت عمر سے گفتگو کی اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اپنے کام کا آغاز کب کیا تھا۔
جنرل ضیاالحق کے دور کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے راتوں رات ایک ہدایت آگئی تھی کہ خواتین کو ٹیلی ویژن پر اپنے سر پر دوپٹہ اوڑھنا ہوگا۔
وہ اس وقت ایک پروجیکٹ کی شوٹنگ کر رہی تھیں جو آدھی مکمل ہوچکی تھی۔
صبا حمید نے مذکورہ حکم کی تعمیل نہیں کی اور ڈائریکٹر سے کہا کہ اب دوپٹہ جوڑنا عجیب لگے گا اور یہ کردار کی ڈیمانڈ کے بھی خلاف ہے۔
اس کے بعد یہ ڈرامہ کبھی نشر نہیں ہوا اور انہوں نے اداکاری سے اس وقت تک وقفہ بھی لیا جب تک کہ اداکاراؤں پر ایسی کوئی پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ بند نہیں ہوگیا۔
رنگت کی بابت سوال پر صبا حمید کا جواب
صبا سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا انہیں سانولی رنگت کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا؟ اس پر انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ یہ سوچ کر بڑی ہوئیں کہ ان کا رنگ صاف ہے اس لیے وہ نہیں جانتی تھیں کہ اس کے لیے امتیازی سلوک کیا چیز ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں کبھی بھی اس سے گزرنا نہیں پڑا لیکن بعد میں اس نے دوسری خواتین کو دیکھا جنہیں کاسٹ نہیں کیا گیا کیونکہ ان کی رنگت ’صاف‘ نہیں تھی۔