چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ سائفر دستاویزات اس کیس میں بنیادی چیز ہے، سازش ہوئی یا نہیں یہ سائفر دستاویز سے ہی پتا چلے گا۔
بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔
یہ سماعت ایک ایسے موقع پر ہوئی جب گزشتہ رات اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے خفیہ ایجنسی کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت کی شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھی۔
مزید پڑھیں
سائفر کیس کی سماعت کرنے والے 2 رکنی بینچ کے علاوہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دیگر ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا۔
اسی لیے بدھ کے روز کیس کی سماعت انتہائی اہمیت کی حامل تھی تاہم سماعت کے دوران ججز اور وکلا کی جانب سے بھی اس خط کے حوالے سے عدالتی کارروائی کے دوران کوئی تاثر تک نہیں دیا گیا۔
عدالتی کارروائی کے دوران کیا ہوا؟
2 رکنی بینچ سماعت کے لیے کچھ تاخیر سے کمرہ عدالت پہنچا اور معمول کے مطابق کارروائی کا آغاز کیا۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل کے آغاز میں سائفر نہ دکھانے کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ یہ کیس ایسا ہی ہے جیسے قتل کا مقدمہ ہو اور لاش غائب ہو، جیسے انسداد منشیات کا کیس ہو اور مال مقدمہ ہی غائب ہو۔
اس پر بینچ میں موجود جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ آپ کو میں ایک مفت قانونی مشورہ دیتا ہوں، اپنے دلائل کو مختصر رکھیں اور اسے طول مت دیں، یہ نقطہ آپ پہلے بھی اٹھا چکے ہیں۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہاکہ تھوڑی کنفیوژن ہے میں اس لیے اس حوالے سے بات کر رہا ہوں کہ یہ واضح ہو جائے کہ معاملہ کیس کے میرٹ کا ہے۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیس کے 2 پہلو ہوتے ہیں، ایک کیس کا ٹرائل کیسے چلا اور دوسرا الزامات سے متعلق شواہد کو میرٹ پر پرکھنا، ہم آپ کو شہادت پڑھنے کا اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ ہم اس کیس کے میرٹس کو دیکھ رہے دیں۔
اس کے بعد چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کی کارروائی عدالتی اوقات کے بعد بھی چلتی رہی؟ میڈیا رپورٹس میں تو یہ سب موجود ہے لیکن کیا ریکارڈ پر بھی ایسا کچھ موجود ہے؟
عمران خان کے وکیل نے کہاکہ ہم متعدد بار کہتے رہے کہ عدالتی اوقات کے بعد کیس کی مزید سماعت نہیں ہونی چاہیے لیکن جج نے آرڈر شیٹ میں ایسا کچھ درج نہیں کیا۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بولے کہ کیا آپ کی اپیل کی ایک بنیاد یہ ہے کہ ٹرائل کورٹ نے اپنے اوقات کار کے بعد بھی کیس چلایا؟
وکیل سلمان صفدر نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہاکہ میں اس نقطے کو اپیل کی بنیاد نہیں بناؤں گا۔
پراسیکیوشن کے گواہ اور کیس میں تضاد
بیرسٹر سلمان صفدر نے اپنے دلائل کے دوران دفتر خارجہ کے ایک گواہ کا بیان پڑھتے ہوئے کہاکہ استغاثہ کا کیس ہے کہ سائفر کی کاپی 5 لوگوں تک گئی جبکہ پراسیکیوشن کی دستاویزات کے مطابق سائفر کی کاپی 9 لوگوں کو بھیجی گئی۔
سلمان صفدر نے کہاکہ عمران خان پر کیس میں ایک الزام یہ بھی عائد کیا گیا کہ سائفر کی کاپی واپس دفتر خارجہ کو نہیں بھیجی گئی جبکہ پراسیکیوشن کی دستاویزات کے مطابق عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کی ایف آئی آر درج ہونے تک کسی بھی دفتر سے کاپی واپس ہی نہیں آئی۔ سائفر بھیجنے کے 17 ماہ بعد ایف آئی آر درج ہوئی اور اگلے روز دیگر دفاتر سے کاپی واپس دفتر خارجہ کو دی گئی۔
سلمان صفدر نے کہا کہ اگر وزیراعظم اور وزیر خارجہ پر اس حوالے سے ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے تو پھر دیگر دفاتر کے خلاف کیا کارروائی کی گئی اس حوالے سے بھی پراسیکیوشن نے کچھ نہیں بتایا۔
اس ہر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ایک طرح جرم میں دیگر ملزمان کو نامزد نہیں کیا جاتا تو اس کے کیا نتائج ہوں گے؟
اس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہاکہ اس کا مطلب ہے کہ کیس میں کچھ ملزمان کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور کچھ کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کیس غیر سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا سائفر کی کاپی تفتیشی افسر کو دکھائی گئی ہے؟ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ اگر تفتیشی افسر دستاویزات دینے کی درخواست کرے اور نہ دی جائیں تو پھر اس کے کیا نتائج ہوں گے؟
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہاکہ تفتیشی افسر کو دستاویزات نہیں دکھائی گئیں، تفتیشی افسر نے سائفر دیکھے بغیر چالان پیش کیا اور جج نے سائفر دیکھے بغیر فرد جرم عائد کردی، اگر تفتیشی افسر کو کوئی دستاویزات نہیں دکھائی جاتیں تو وہ چالان نہیں تیار کرسکتا اور پورا کیس ہی وہیں ڈھیر ہوجاتا ہے۔
سائفر ہی بنیادی چیز، سازش ہوئی یا نہیں یہ سائفر دیکھ کر ہی پتا چلے گا
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے سائفر سے متعلق عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ پڑھا اور ہھر شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ پڑھا۔ انہوں نے دلائل دیے کہ دونوں میں سائفر کو ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا اور پہلے اجلاس کے بعد ڈی مارش بھی کیا گیا جبکہ دوسرے اجلاس کے اعلامیہ میں پہلے اجلاس کی توثیق کی گئی۔
انہوں نے کہاکہ یہ اعلامیہ اگر عمران خان اور شاہ محمود کی ذات کی وجہ سے جاری کیا گیا تو دوسرے اجلاس کے ممبران تو وہ نہیں تھے اس بار تو کمان کی تبدیلی ہو چکی تھی۔
اس بار چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سازش ہوئی ہے یا نہیں ہوئی یہ تو سائفر دیکھ کر ہی پتا چلے گا، اس کیس میں سائفر ہی بنیادی چیز ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب برہم
سماعت کے اختتام پر ایڈووکیٹ جنرل کی عدم موجودگی پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے برہمی کا اظہار کیا اور کہاکہ ہم نے ایڈووکیٹ جنرل کو اسٹیٹ کونسل تعینات ہونے والے وکلا کی سی وی جمع کروانے کا کہا تھا، وہ خود کہاں ہیں؟ ان کی جانب سے کوئی عدالت میں موجود کیوں نہیں ہے؟ جس کے بعد کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کے مطابق وہ کل اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔ جس کے بعد ایف آئی اے کے وکیل اپنے دلائل عدالت کے سامنے رکھیں گے۔