برطانوی روزنامے ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انٹیلیجنس حکام نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کو تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا، اخبار نے باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ غزہ پر حملے کے بنیادی مقصد کو ناکامی کا سامنا ہے کیونکہ بین الاقوامی حمایت اسرائیل مخالف ہوگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق محصور غزہ کی پٹی میں 5 ماہ سے زائد جاری شدید لڑائی کے باوجود ‘گوریلا’ مزاحمت کے حلقے باقی ہیں، اور ایسے وقت کہ جب امریکا نے بھی اسرائیل کی پشت پناہی سے بظاہر منہ موڑ لیا ہے حماس کی بقیہ بٹالین کو تباہ کرنے میں بہت تاخیر ہو سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع اس ضمن میں بین الاقوامی دباؤ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جو اسرائیل پر کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے بڑھتا جارہا ہے، دوسری جانب، رپورٹ کے مطابق، کچھ زیر زمین ہتھیاروں کی تیاری کی سہولیات لگتا ہے کہ ابھی تک برقرار ہیں۔
مزید شواہد فراہم کیے بغیر، ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ حماس کو تباہ کرنے کا بہترین موقع رفح میں مداخلت سے وابستہ ہے۔ ’امریکہ رفح میں مداخلت کی حمایت نہیں کرتا جیسا کہ اس نے پہلے کیا تھا، لہذا ابھی کارڈ اچھے نہیں ہیں، مطلب کہ اسرائیل کو غیر موافق صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ ڈرامائی اور سخت ہونا پڑے گا۔‘
رفح میں مداخلت
امریکا نے بارہا کہا ہے کہ اسرائیل کو انسانی بنیادوں وضع کردہ منصوبے یا فوجی منصوبے کے بغیر رفح پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے 12 مارچ کو صحافیوں کو بتایا کہ امریکا رفح آپریشن کی حمایت کے ضمن میں کچھ ناقابل تردید درکار ہے۔ ’یہ ایک قابل اعتبار اور قابل عمل انسانی امداد کا منصوبہ ہے لیکن ہم نے ابھی تک ایسا کوئی منصوبہ نہیں دیکھا۔‘
ترجمان میتھیو ملر کے مطابق یہ امریکی فیصلہ ہے کہ وہ انسانی امداد کے منصوبے کے بغیر رفح میں نہیں جا سکتے جو قابل بھروسہ ہو اور وہ حقیقت میں اس پر عمل درآمد کر سکیں۔ ’آئیے انتظار کریں اور دیکھیں کہ وہ کیا لے کر آتے ہیں۔‘
سلامتی کونسل کی قرارداد
غزہ میں جنگ بندی سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر امریکا کی جانب سے اپنا ویٹو پاور استعمال نہ کرنے کے بعد سے واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان کشیدگی اس وقت عروج پر ہے، اس نوعیت کے امریکی موقف کے باعث سلامتی کونسل میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد منظور کرلی گئی تھی۔
سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں تمام فریقین کی جانب سے احترام کرتے ہوئے ماہ رمضان کے لیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس سے دیرپا جنگ بندی کی بنیاد ڈالی جاسکے۔
یہ قرارداد تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتی ہے، امداد میں اضافے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس کی ترسیل میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کا بھی مطالبہ کرتی ہے۔
یہ قرار داد جو 10 منتخب اراکین نے کونسل میں لکھی تھی اور اسے موزمبیق کے نمائندے نے کونسل میں تجویز کیا تھا، اس قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے جبکہ امریکا نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
یوں تو امریکا سمجھتا ہے کہ مذکورہ قرارداد غیر پابند ہے، تاہم اقوام متحدہ کے چارٹر میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں عالمی قانون کے تحت قانونی طور پر پابند ہیں۔
غزہ کی نسل کشی
اس وقت فلسطینیوں کی مبینہ نسل کشی پر بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کو مقدمہ کا سامنا ہے، جو گزشتہ برس 7 اکتوبر سے غزہ پر تباہ کن جنگ مسلط کیے ہوئے ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر سے غزہ میں اسرائیل کی جاری نسل کشی میں اب تک 32,490 فلسطینی شہید اور 74,889 زخمی ہو چکے ہیں، اسی طرح کم از کم 7,000 افراد لاپتا ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غزہ بھر میں اپنے گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
فلسطینی اور بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ شہید اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کی پٹی کے تقریباً 20 لاکھ افراد کو زبردستی نقل مکانی کرنا پڑی ہے، جس میں بے گھر ہونے والوں کی اکثریت مصر کی سرحد کے قریب گنجان آباد جنوبی شہر رفح میں جانے پر مجبور ہوئی ہے، 1948 کے نکبہ کے بعد یہ ایک بڑی ہجرت تصور کی جاتی ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے شروع کیے گئے طوفان الاقصیٰ نامی آپریشن کے دوران اس کے فوجیوں سمیت 1,200 شہری مارے گئے تھے، تاہم اسرائیلی میڈیا نے اس ضمن میں ایسی رپورٹ شائع کی ہیں جن کے مطابق اس دن بہت سے اسرائیلی شہری ’فرینڈلی فائر‘ سے مارے گئے تھے۔