انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر ہونے والے تصدق حسین جیلانی کون ہیں؟

ہفتہ 30 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے عدالتی امور میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے الزامات پر وفاقی کابینہ نے آج سابق چیف جسٹس، جسٹس (ریٹائرڈ) تصدق حسین جیلانی پر مشتمل ایک رکنی انکوائری کمیشن مقرر کر دیا ہے۔ جسٹس جیلانی، حالیہ نگران دور میں نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے رشتے دار ہیں۔

کمیشن آف انکوائریز ایکٹ 2017 کے تحت جسٹس جیلانی کو 60 دن کے اندر تحقیقات مکمل کرکے اس معاملے کی رپورٹ جمع کرانی ہے، لیکن عمومی طور پر اس طرح کے کمیشن اپنے کام کی تکمیل کے لیے مزید وقت مانگتے ہیں۔

جسٹس جیلانی چیف الیکشن کمشنر بھی رہے

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جسٹس تصدق حسین جیلانی 2013 میں کچھ عرصے کے لیے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی رہے اور پھر اس کے بعد جسٹس (ریٹائرڈ) فخرالدین جی ابراہیم کو باقاعدہ چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تھا۔

جسٹس (ریٹائرڈ) تصدق حسین جیلانی کون ہیں؟

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں بہت شہرت ملی اور وہ معزولی کے بعد بڑی دھوم دھام کے ساتھ دوبارہ سے اپنے عہدے پر بحال ہوئے۔ 2013 میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس تصدق حسین جیلانی دسمبر 2013 میں چیف جسٹس بنے تھے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

جسٹس (ریٹائرڈ) تصدق حسین جیلانی 6 جولائی 1949 کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سکول اور گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے حاصل کی۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے انہوں نے ایل ایل بی کیا اور اس کے بعد اسکالر شپ پر لندن یونیورسٹی سے بھی قانون کی تعلیم حاصل کی۔

جسٹس (ریٹائرڈ) تصدق حسین جیلانی بطور جج

1993 میں جسٹس جیلانی ایڈووکیٹ جنرل پنجاب تھے۔ 1994 میں محترمہ بینظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم پاکستان ان کو لاہور ہائیکورٹ کے جج کے لیے نامزد کیا تھا اور اس کے بعد 2004 میں وہ سپریم کورٹ کے جج بنے۔ وہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری، ممبر پنجاب بار کونسل، اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی رہے۔

جنرل مشرف کی جانب سے نومبر 2007 میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد جسٹس جیلانی نے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا جس کے نتیجے میں وہ بطور جج عہدے پر کام نہیں کر پائے۔ اس کے بعد 2009 میں وہ بطور سپریم کورٹ جج بحال ہوگئے تھے۔

جسٹس جیلانی ایک ترقی پسند جج ہیں

غیرت کے نام پر قتل، اقلیتوں کے حقوق، بنیادی انسانی حقوق اور تعلیم کے حق سے متعلق ان کے فیصلے موجود ہیں۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی نے چیف جسٹس بننے کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے کہا کہ انہیں اضافی حفاظتی پروٹوکول کی ضرورت نہیں اور ان کی آمد و رفت کے لیے لوگوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس جیلانی کا پہلا سو موٹو

جسٹس جیلانی نے چیف جسٹس بننے کے بعد جو پہلا سو موٹو لیا وہ ان کے پیشرو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے الوداعی فل کورٹ ریفرنس سے متعلق تھا جس میں صرف ایک ٹی وی چینل کو کوریج کی اجازت دی گئی تھی۔ تحقیقات کے بعد پتا چلا ان کا پرنسپل سیکریٹری اس معاملے میں ملوث تھا جس کو بطور سزا ہیومن رائٹس سیل میں ٹرانسفر کردیا گیا تھا۔

اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے جسٹس جیلانی کا سو موٹو

جسٹس جیلانی نے پشاور میں چرچ پر دہشت گرد حملے کے حوالے سے ایک درخواست پر ازخود نوٹس لیا تھا جس میں بعد میں ہندو کمیونٹی بھی شامل ہوئی کہ ان کے مذہبی مقامات کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور اسی طرح کالاش قبیلے کو طالبان کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں سے متعلق درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے جسٹس جیلانی نے 19 جون 2014 کو اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک بڑا فیصلہ جاری کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp