ترکیہ کے قریب غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے تارکین وطن کی کشتی طوفانی لہروں کی زد میں آکر ڈوب گئی۔ ترک میڈیا کے مطابق حادثے میں کشتی میں سوار تمام افراد ڈوب گئے جن میں سے اب تک 61 افراد کی لاشیں سمندر سے نکالی جا چکی ہیں۔ ڈوبنے والے بدقسمت لوگوں میں بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کا ایک خاندان بھی شامل تھا۔ علمدار روڈ کے رہائشی سید علی آغا ان کی اہلیہ طاہرہ بی بی اور ان کے 4 بچے جن میں 14 سالہ سبحان، 12 سالہ سجاد، 10 سالہ فاطمہ اور 5 سالہ کوثر شامل ہیں کشتی میں سوار تھے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے علی آغا کے برادر نسبتی سید عادل نے بتایا کہ کشتی حادثہ 15 مارچ کو رونما ہوا جبکہ ہمیں 20 مارچ کو اطلاع ملی جس کے بعد گھر میں صف ماتم چھا گیا۔ اس دوران کاغذی کارروائی کی گئی لیکن اپنے پیاروں کی میتوں کو پاکستان لانا ایک مشکل عمل تھا جس کے بعد خاندان میں باہمی مشاورت سے ہم نے طہ کیا کہ اپنے ورثا کو ترکی میں ہی سپرد خاک کردیا جائے۔
مزید پڑھیں
سید عادل نے بتایا کہ میرے برادر نسبتی تقریباً 15سال قبل پاکستان سے ایران ہجرت کر گئے کیونکہ اس دور میں بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگیٹ کلنگ ہو رہی تھی اور فرقہ واریت عروج پر تھی ایسے میں میرے برادری نسبتی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایران ہجرت کر جائیں تاہم گزشتہ 2، 3 سال سے اپنے بچوں کے ہمراہ ترکی میں مقیم تھے۔ تاہم بہتر زندگی کی خواہش میں میرے برادر نسبتی جرمنی اپنے دیگر بھائیوں کے پاس جانا چاہتے تھے ایسے میں مالی مشکلات کے سبب انہیں غیر قانونی راستہ اختیار کرنا پڑا جس کی وجہ سے اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔
سید عادل نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ حادثے کو کئی دن گزر گئے لیکن کسی بھی حکومتی شخصیت نہ رابطہ نہیں کیا۔ لوگ مہنگائی، بھوک، افلاس اور بے روزگاری سے تنگ آکر وطن چھوڑ رہے ہیں ایسے میں یہ لوگ انسانی اسمگلروں کے پاس پہنچ جاتے ہیں جو انہیں سنہرے خواب دیکھا کر اس خطرناک سفر پر لے جاتے ہیں۔ ماضی میں کئی افراد انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئے ہیں مگر حکومت ایسے عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ مہنگائی اور بڑھتی بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مؤثر پالیسی ترتیب دیں تاکہ یہ خونی سفر کا سلسلہ ختم ہو سکے۔
غیر قانونی طور پر یورپ کا خواب دیکھتے ہوئے سمندر کی نظر ہونے والا یہ خاندان پہلا نہیں گزشتہ برس فروری میں عملدار روڈ کی رہائشی فٹ بال کی کھلاڑی شاہدہ رضا بھی غیر قانونی طور پر پاکستان سے یورپ جانے کا خواب لیے ایسی ہی ایک کشتی میں سمندری طوفان کی نظر ہوگئی تھیں۔
ہر سال روشن مستقبل کا خواب لیے لوگ غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے لیے ڈنکی کا پر خطرسفر کرتے ہیں۔ ڈنکی کی ابتداء ایک ایسے ایجنٹ سے ہوتی ہے جو غیر قانونی طور پر سرحد پار کروانے کا خواب دیکھا کر ملک بھر سے لوگوں کو کوئٹہ لے آتے ہیں۔ جس کے بعد نوشکی اور تفتان کے غیر قانونی راستوں کے زریعے یہ لوگوں کو پیدل یا گاڑیوں میں چھپا کر سرحد پار کرتے ہیں جس کے بعد انہیں کئی روز تک ترکی کی سرحد تک غیر آبادی پہاڑی راستوں کے زریعے ترکی لے جایا جاتا ہے۔ ترکی سے سمندر کا طوفانی سفر شروع ہوتے ہے جب سیکنڑوں لوگوں کو ایک چھوٹی سے کشتی میں بنا کئی حفاظتی تدابیر کے سفر کروایا جاتا ہے اگر یہ کشتی نہ ڈوبنے اور نہ پکڑی جائے تو پھر یہ لوگ غیر قانونی طور پر یونان داخل ہو جاتے ہیں۔