اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر ریٹائرڈ جج پر مشتمل انکوائری کمیشن کی تشکیل کیخلاف لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام آل پاکستان وکلا کنونشن نے مجوزہ انکوائری کمیشن مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس ضمن میں از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں
لاہور ہائیکورٹ کے جاوید اقبال آڈیٹوریم میں منعقدہ وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر مملکت عارف علوی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی کے اثاثوں کا سوال کرو تو وہ کہتے ہیں بات یہاں سے شروع نہیں ہوتی، یہاں پر آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ ہوتی ہے، آپ کی اور آپ کی اولاد یا بیوی کی گفتگو ہو اور اس کو ریکارڈ کرلیا جاتا ہے، معاشرے کو تباہ کیا جارہا ہے۔
عارف علوی نے وکلا پر زور دیا کہ انہیں اس ملک کے نظام کو بدلنے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی، ملک کے سیاسی ماحول میں جب تک انصاف کا بول بولا نہیں ہوتا تو تب تک ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، ملک میں حادثاتی جمہوریت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔
کنونشن سے خطاب میں رہنما تحریک انصاف حامد خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو فوری ان ججز کے خط پر ازخود نوٹس لینا چاہیے تھا، اتنے بڑے حادثے پر وزیراعظم کو طلب کرکے چیف جسٹس کی مشاورت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، بولے؛ کیا کبھی ملزموں سے بھی کسی نے مشورے کیے ہیں۔
حامد خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کو حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ پورے پاکستان کے وکلا ان کے ساتھ کھڑے ہیں، انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو بھی بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے بھی خوف کی علامت میں ہورہے ہیں، جسٹس شاہد جمیل کا استعفیٰ اس کی واضح مثال ہے۔
رہنما تحریک انصاف اور رکن قومی اسمبلی سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آئین کے تحت وجود میں آئی ہے، چیف جسٹس کو وزیر اعظم سے ملاقات نہیں کرنا چاہیے تھی، انہیں پتا ہونا چاہیے تھا کہ ان کی عدالت میں اہم مقدمات زیر سماعت ہیں۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پہلے بھٹو کو پھانسی دیدی جاتی ہے پھر کہا جاتا ہے کہ وہ عدالتی غلطی تھی، خدارا، اب 45 سال نہیں لیں اور انصاف کریں، 6 ججز انصاف مانگ رہے ہیں اور آپ نے صرف ایک ریٹائرڈ جج کو ذمہ داری دے دی، انہوں نے واضح کیا کہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔
لطیف کھوسہ نے تصدق حسین جیلانی کی انکوائری کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے نامزدگی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نواز شریف کی نااہلی کو ختم کیا، لطیف کھوسہ نے وکلا کو متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ہر ادراے پر چھائی ہوئی ہے، اسی نے جعلی حکومت کو ہم پر مسلط کیا ہے۔
وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق سینیٹر ولید اقبال کا کہنا تھا کہ مذکورہ 6 ججز ہمارے ہیرو ہیں، وکلا کبھی اس جانبدار کمیشن کو تسلیم نہیں کرتے، عدلیہ کے اندر کیوں مداخلت کی جارہی ہے، ان 6 حاضر سروس ججز کے معاملے کو انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا، سپریم کورٹ خود اس معاملے کی انکوائری کرتے ہوئے ان اداروں کو طلب کرے
صدر لاہور ہائیکورٹ بار اسد منظور بٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ 6 ججز سمیت دیگر ججز جو ضمیر کی آواز سن کر فیصلے دیتے ہیں وہ ہمارے ہیرو ہیں، ایسے باضمیر ججز ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں، وکلا کی بڑی تعداد کنونشن میں شریک ہوکر اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں، اب امید کی نئی صبح طلوع ہونے جا رہی ہے۔
کنونشن میں شریک وکلا نے اسلام آباد کے 6 ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے جی پی او چوک تک مارچ کیا اور شکایت کنندہ ججز اور عدلیہ کی آزادی کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔