ججز کے خط کا معاملہ: جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ مقرر

ہفتہ 30 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کو انکوائری کمیشن کا سربراہ بنا دیا گیا۔ وفاقی کابینہ نے ججز کے الزامات پر انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دی۔ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی پر مشتمل ایک رکنی کمیشن اس معاملے کی تحقیقات کرے گا۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے خط پر حکومت نے چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت ان الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملاقات کے بعد، پی ٹی وی کے میڈیا سینٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج پر مشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر قانون کے مطابق کابینہ سے منظوری کے بعد مجوزہ کمیشن کے ٹی او آرز مرتب کیے جائیں گے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اجلاس میں کچھ ایسے واقعات کا ذکر بھی ہوا جو سابق چیف جسٹس کے دور سے متعلق تھے، اس کے علاوہ معیشت سمیت دیگر ملکی مسائل پر بھی گفتگو ہوئی، وزیراعظم نے چیف جسٹس صاحب سے کہا کہ ٹیکس معاملات کے جلد فیصلے کیے جائیں، جس پر چیف جسٹس نے ٹیکس معاملات کے لیے بھی بینچز بھی بنانے کی یقین دہانی کرائی۔

وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ کمیشن بنانا وفاقی کابینہ کا اختیار ہے، چیف جسٹس نے بھی انکوائری کمیشن پر رضا مندی ظاہر کی ہے، ججز کا خط لکھا جانا مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ عدلیہ پر چھوڑتے ہیں، یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔

اعظم تارڑ نے کہا کہ اس کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے گا، ہر وقت افواج پاکستان پر تنقید نہیں کرنی چاہیئے، جب جب ادارے اپنے دائرہ کار سے نکل کر کام کرتے ہیں خرابی پیدا ہوتی ہے، یہاں چیف جسٹس صاحبان نے بے شمار سوموٹو نوٹس لیے لیکن جو سیاستدان ان کے زیر عتاب رہے وہ اب پھر سامنے ہیں اور جج صاحبان غائب ہو چکے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کمیشن قانون کے مطابق 60 دن میں رپورٹ جمع کرانے کا پابند ہے۔

خیال رہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان نے 2 مرتبہ فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا، پہلے فل کورٹ اجلاس کے بعد وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات کے بعد ہونے والے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایگزیکٹو کی عدالتی کاموں میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔

واضح رہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈرمائن کرنے والے کون تھے؟ ان کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے، ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp