سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی جس میں بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے، سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس عامر فاروق نے بیرسٹر سلمان صفدر کو بقیہ دلائل کل دینے کا کہا اور ریمارکس دیے، ’ یہ آپ کے فائدے کی بات ہے، ہاتھی آپ نکال چکے دم بھی نکال دیں۔‘
مزید پڑھیں
بیرسٹر سلمان صفدر نے آج اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آخری جرح دونوں فریق کرتے ہیں کہ کیس کیا ہے، 342 کا بیان پڑھ کر سنایا گیا تو بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی سے 2، 2 سوال پوچھے گئے اور سوال پوچھنے کے فوری بعد سزا سنا دی گئی۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 342 کے بیان میں ایک حصہ لکھا ہوا ہے کہ جج سزا سنا کر فوری عدالت سے روانہ ہوگئے، کیسے ہوسکتا ہے کہ 342 کے بیان میں یہ کس طرح لکھا ہوا ہے، 342 کا بیان ایک مکالمہ ہوتا ہے جو فیصلہ سنانے سے پہلے ہوتا ہے۔
’سوال سائفر، جواب سفید کوا‘
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ نے 342 کے بیان پر سوال کھڑا کردیا کردیا اور بیان سامنے بھی آگیا، کیا اس فیصلے میں سرکاری اور ملزمان کے وکلا کے دلائل موجود ہیں، جس پر سلمان صفدر نے جواب دیا، نہیں فیصلے میں دلائل نہیں ہیں، فیصلے میں ایک پیراگراف موجود ہے جس میں دلائل کا ذکر کیا گیا ہے کہ ملزمان کے وکیل دلائل سے ثابت نہیں کرسکے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ اگر پیغام سائفر کے طور پر نہ آتا اور عمومی طور پر بھیجا جاتا تو پھر کیا ہوتا، اگر سائفر ڈپلومیٹک بیگ کے طور پر آتا تو کیا پھر وزیراعظم اسے سامنے لاسکتا تھا؟
چیف جسٹس عامر فاروق بولے، لیکن پھر مسئلہ وہی ہے کہ سائفر میں تھا کیا۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ سائفر ایک سفید کوا ہے۔
’ایک طرف ڈی مارش کر رہے ہیں اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں تعلقات خراب نہ ہوں‘
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پھر سوال کیا کہ ایک طرف آپ ایک ملک کو ڈی مارش کر رہے ہیں اور دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ اس سے تعلقات خراب نہ ہوں، آپ نے اس ملک سے تعلقات خراب نہ کرنے کے لیے سابق وزیراعظم کو جیل میں ڈال دیا، ایک دوسرے ملک نے آپ کو بہت خوفناک بات کہی ہے اور وہ سائفر میں آئی تو آپ کسی کو بتا نہیں سکتے؟
بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ ریاست کے دشمن کے لیے بنے قانون کو سیاسی دشمن کے خلاف استعمال کر لیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ قانون تو اب غیرضروری ہو چکا ہے، 75 سال میں کونسی اسمبلی نے اس قانون کو ختم کیا؟
’سائفر اس لیے سامنے نہیں لائے کیونکہ وہ ملزمان کی حمایت کرتا‘
بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ آکسفورڈ اور کیمبرج سے پڑھنے والوں کو اس کیس میں پراسیکیوٹ کیا گیا، ٹرائل کورٹ جج نے اس کیس کو چلاتے وقت اپنے حلف کا خیال بھی نہیں رکھا، دشمن ریاست کون سی ہے، دشمن ریاست کو کیا فائدہ پہنچایا گیا، سپریم کورٹ ججز نے کہا کہ سائفر کمیونی کیشن کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں آئے، قانون کا مذاق بنایا، غیر سنجیدہ پراسیکیوشن کی گئی۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سائفر سامنے اس لیے نہیں لائے کیونکہ وہ ملزم کی فیور کرتا، سائفر کا متن پلین ٹیکسٹ کی صورت میں بھی سامنے نہیں آیا، ایسا نہیں کہ سائفر گم گیا، صرف ایک کاپی واپس نہ آنے پر کیس بنایا گیا، سائفر کی تو 9 کاپیاں واپس نہیں آئی تھیں پھر کیس صرف بانی پی ٹی آئی کے خلاف کیوں؟
’سائفر آج بھی ساتھ والی بلڈنگ میں ہے‘
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر آج بھی ساتھ والی بلڈنگ میں موجود ہے، سائفر تو اس کو کہنا ہی نہیں چاہئے، وہ تو فارن آفس میں رہ گیا، اس کی کاپیاں بھجوائی گئیں، اگر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ختم کیا جائے تو چیزوں کو بہتر کرنے کا موقع بھی مل جائے۔
وکیل بانی پی ٹی آئی نے دلائل دیے کہ سائفر کبھی بھی عوامی جلسے میں نہیں پڑھا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سائفر کی جب ڈی کوڈ ہونے کے بعد کاپیاں بن جاتی ہیں تو وہ سائفر ہی رہتا ہے؟
سلمان صفدر نے جواب دیا کہ سائفر دفتر خارجہ میں رہ گیا اور اس کی کاپیاں آگے بھیجی گئیں، مجھے معلوم نہیں تھا لیکن سپریم کورٹ کے ججز نے مجھے سائفر کہنے سے روکا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ سائفر کی جو کاپیاں بنتی ہیں وہ Transliteration کہلاتی ہیں، آپ نے 10 سال کی ملنے والی سزا کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے، ہم نے نوٹ کرلیا ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اچھے سے دلائل دیے، ایک چیز آپ کے پاس آتی ہے وہ واپس نہیں کی جاتی اس بارے بتائیں، جس پر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ صرف بانی پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ باقی لوگوں کے پاس بھی کاپیاں تھیں۔
’بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود نے راز افشا نہیں کیے‘
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید کہا کہ ہم نے جائزہ لیا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے بیانات میں کچھ ڈسکلوز نہیں کیا۔ چیف جسٹس بولے کہ آپ کو مزید کل سن لیں گے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 15 منٹ میں دلائل مکمل کرلوں گا وقت دے دیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے کہا، سلمان صاحب! آپ کل تیاری کے ساتھ اس پر دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یہ آپ کے فائدے کی بات ہے، ہاتھی آپ نکال چکے دم بھی نکال دیں۔
بعد ازاں، عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔