درزی کی حکومت

پیر 8 اپریل 2024
author image

مہوش بھٹی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں بنیں۔ بے شمار بادشاہوں نے راج کیا۔ حکومتیں آئیں۔ بڑے طاقتور حاکم گزرے جنہوں نے ملکوں کی تقدیریں بَدَل دیں۔ حکمرانوں نے کبھی جھوٹ بولے اور کبھی سچ۔ کبھی وہ سچ کی وجہ سے پھنسے اور کبھی جھوٹ لے ڈوبا۔ ہر حکمران کا انجام ضرور ہوا، اچھا یا برا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں چیزیں بدلیں، حالات بدلے، تقدیریں بدلیں، لوگ بدلے، سائنس بدلی، ٹیکنالوجی بدلی، نواز شریف کی قسمت بدلی لیکن اگر کچھ نہیں بدلہ تو وہ ہے ‘سلطنتِ درزی’۔ ہمارا پیارا ہر دِل عزیز درزی۔ یہ وہ سلطنت ہے جس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ پایا۔ یہاں درزی کی حکومت کو کوئی للکار نہیں سکا۔ درزی نے جو بھی کہا وہ حرفِ آخرثابت ہوا۔ کسی بھی قسِم کی چیخ و پکار یا دھمکی، درزی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

آج تک کسی درزی نے یہ نہیں کہا کہ ‘میں ایسا کیوں ہوں’۔ کیونکہ اسے ہمیشہ یہی احساس رہا ہے کہ کسٹمر کا ہی کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے، میرا نہیں۔ عام دنوں میں جب درزی کو کپڑے دیتے ہیں تو وہ بڑے اعتماد سے آپ کو ایک تاریخ بتا دیتا ہے کہ باجی فلاں دِن بن جائیں گے کپڑے، آپ نے ٹینشن نہیں لینی۔ وہ تاریخ پرچی پر بھی لکھ کے دے دیتا ہے تاکہ کسٹمر کو کسی قسِم کا شک نا رہے۔ پِھر جب کسٹمر اس تاریخ پر کپڑے لینے آتا ہے تو درزی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہہ دیتا ہے کہ ‘باجی ابھی تو نہیں بنے، لیکن بن جائیں گے’۔ اِس پر کسٹمر کا خون کھول جاتا ہے اور وہ غصے سے پھٹنے والی ہوجاتی ہیں لیکن درزی پر جوں تک نہیں رینگتی۔ درزی کے چہرے پر ایک خاص قسِم کا اطمینان ہوتا ہے جو اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کے اسے گھنٹہ فرق نہیں پڑا۔ خیر، صارف چیخ چلا کے اور رو پٹ کے واپس چلا جاتا ہے کیوںکہ یہ درزی کی سلطنت ہے۔ یہاں درزی سلطنت کا بے تاج بادشاہ ہے۔ آپ کے کپڑے جہاں بھی ہیں وہ آپ غصے میں بھی نہیں نکلوا سکتے۔ آپ مجبور ہیں درزی کے آگے۔ نا کپڑا آپ کے ہاتھ میں ہے اور نا ہی درزی۔ اب درزی آپ کو نئی تاریخ دے گا جس کو قبول کرنا آپ کا فرض ہو گا کیونکہ آپ کے کپڑے خدا جانے کٹے بھی ہیں کہ نہیں!

یہ وہ سلسلہ ہے جو درزی کے ساتھ چلے ہی جاتا ہے۔ اِس سلسلے کو آج تک کوئی ٹھیک نہیں کر سکا۔ اِس ملک کے بہت سے مسئلے واقعی میں حَل ہو چکے ہیں لیکن درزی نہیں بَدَل سکتا۔ اِس سلطنت میں سب ہی غلام ہیں۔ آپ بھی۔

اچھا عام دنوں کی تو بات ہوگئی۔ درزی کی سلطنت میں عید کے دنوں میں کچھ اور ہی سماں ہوتا ہے۔ ہر عورت نے عید کے لیے اپنا جوڑا سلوانا ہوتا ہے۔ درزیوں کی ریاست میں ایک جنگ کا سا سماں ہوتا ہے۔ یہ شدید جھوٹ بولنے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے۔ درزی اِس وقت پر صرف جھوٹ بولتے ہیں لیکن وہ کسی کو انکار نہیں کرتے۔ ہر خاتون کا جوڑا قبول کر لیتے ہیں۔ ہر کسی کو تاریخ بھی دے دیتے ہیں۔

رمضان کے آخری دنوں میں اتنا رش افطاری کے ٹیبل پر نہیں ہوتا جتنا درزی کی دکان پر ہوتا ہے۔ ہر خاتون یہی کہتی سنائی دیتی ہےکہ ‘ماسٹر صاحب آپ اس تاریخ کو میرے کپڑے دے دیں گے نا؟’ اور ہر درزی بڑے ہی اطمینان سے کہہ رہا ہوتا ہے، ‘باجی مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے۔ آپ کو شاید پہلے ہی مل جائیں’۔

اِس سے بڑا جھوٹ کائنات میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ میرے سب سے پسندیدہ درزی وہ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں، ‘باجی سوٹ اب عید کے بعد ہی ملے گا’۔ مطلب وہ عید کے کپڑوں کا مقصد ہی ختم کر دیتے ہیں۔ درزی کی ایک ٹائپ ہوتی ہے جو کہتے ہیں، ‘باجی آپ کا سوٹ تو کاٹ بھی دیا ہوا ہے، اب بس سلنا باقی ہے’۔ حالانکہ وہ سوٹ اپنی اصل حالت میں ہی پڑا ہوتا ہے۔ کچھ درزی تو مکمل تباہی کا راسته چنتے ہیں اور عید کے کپڑے وقت پر بنا تو دیتے ہیں لیکن مکمل خراب۔ فٹنگ کسی اور کی ہوتی ہے اور ڈیزائن کسی اور کا۔ اکثر تو کپڑا بھی کسی اور کا ہی لگا دیتے ہیں۔ خاتون سوٹ دیکھ کر درزی کو بولنا شروع کر دیتی ہے لیکن درزی کی سلطنت میں کسی کی سنوائی نہیں۔ وہاں کپڑے بھی سر جھکائے پڑے رہتے ہیں۔ مشین، دھاگہ، لیس اور باقی چیزیں تب تک نہیں چلیں گی جب تک درزی کا حکم نہیں ہو گا۔

لیکن کیا درزی کا حکم ہو گا؟ کیا آپ کا جوڑا بنے گا؟ کیا اس عید پر آپ نیا جوڑا پہن پائیں گے؟ کیا آپ کا جوڑا آپ ہی کا ہو گا؟ ان سوالوں کے جواب درزی کی حکومت میں شاید ہی ملیں!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مہوش بھٹی کبھی کبھی سوچتی اور کبھی کبھی لکھتی ہیں۔ اکثر ڈیجیٹل میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp