ایران کے صدر ممکنہ طور پر جلد پاکستان کا دورہ کریں گے، جبکہ اس وقت ایران کا ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد ڈپٹی جسٹس منسٹر عسکر جلالیان کی قیادت میں پاکستان میں موجود ہے جس میں ایران کی مختلف وزارتوں کے نائب وزرا شامل ہیں۔ جو پاکستان میں اپنی متعلقہ وزارتوں میں ملاقاتیں کررہا ہے اور دوطرفہ تعاون کو بڑھانے کے لیے بات چیت کی جارہی ہے۔ انہی نائب وزرا میں ایران کے وزیر پیٹرولیم بھی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق یہ وفد ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ممکنہ عنقریب پاکستان آمد کے سلسلے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے آیا ہے۔
مزید پڑھیں
پاک ایران گیس پائپ لائن پر تبدیل ہوتی صورتحال
26مارچ کو پاکستان کے وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے ایک بیان میں کہاکہ پاکستان، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کے لیے امریکا کی ممکنہ تجارتی پابندیوں سے استثنٰی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہم امریکی حکام کے سامنے تکنیکی اور سیاسی بنیادوں پر اپنے دلائل مرتب کریں گے۔
اس بیان کے اگلے روز امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ کسی بھی ملک کو ایران کے ساتھ تجارت کے معاملے میں بہت محتاط رہنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے والا ہماری تجارتی پابندیوں کی زد میں آ جائے گا اور کسی کو بھی بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ لیکن دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو عام لوگوں کی مشکلات کم کرنے اور صنعتی شعبے کی ترقی کے لیے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
حالیہ انتخابات کے بعد ایران کی طرف سے نومنتخب پاکستانی حکومت کو تہنیتی پیغامات بھیجے گئے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید وسعت دینے کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہوسکے گا، اور ایسا ہونے کی صورت میں پاکستان کو کتنا فائدہ پہنچے گا؟
پاکستان کے پاس گیس کے معلوم ذخائر 15 سے 20 سال مزید چل سکتے ہیں، سید توقیر شاہ
سابق سیکریٹری پیٹرولیم سید توقیر حسین شاہ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس منصوبے میں شروع سے شامل رہے ہیں اور یہ منصوبہ پاکستان کی مستقبل میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے، کیونکہ اس وقت پاکستان میں توانائی کا شدید بحران ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں گیس کے ملکی ذخائر ختم ہو رہے ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے ہم درآمدی ایل این جی پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ ایل این جی جو ابتدائی طور پر بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمد کی گئی تھی اب گھریلو ضروریات کے لیے مہیا کی جا رہی ہے اور اسی وجہ سے بل بھی زیادہ آ رہے ہیں۔
توقیر شاہ نے کہاکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پہلے سے گیس کو پورے ملک میں پہنچانے کا انفراسٹرکچر موجود ہے اور ایسے میں اگر پاک ایران گیس پائپ لائن مکمل ہو جاتی ہے تو یہ پاکستان کی مستقبل کی توانائی کی ضروریات کے لیے بہت اچھا قدم ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کا تمام انجینئرنگ ڈیزائن مکمل ہے، اس میں راہداری کے حقوق بھی حاصل کر لیے گئے ہیں، 2014 میں اس منصوبے کے پاکستان میں موجود کچھ حصے پر کام کے لیے ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ بھی دیا گیا تھا لیکن بعد میں اس منصوبے کو روک دیا گیا۔
طلب 6 بلین کیوبک فٹ ہے
سابق سیکریٹری پیٹرولیم نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں گیس کی طلب تقریباً 6 بلین کیوبک فٹ ہے جبکہ ہماری مقامی پیداوار 3 سے 4 بلین کیوبک فٹ ہے۔ ہمیں مقامی گیس 4 سے ساڑھے 4 ڈالر میں پڑ رہی ہے جبکہ گیس نکالنے والی کمپنیوں سے ہم ٹیکس کی صورت جو رقم جمع کرتے ہیں اس سے یہ قیمت اور کم ہو جاتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ درآمدی ایل این جی 7 سے 8 ڈالر میں ملتی ہے پھر اس میں ایڈز آن، ٹالنگ، ری گیسیکیفیشن، پورٹ ہینڈلنگ جیسے دیگر اخراجات ملا کر اس کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔
توقیر شاہ نے کہاکہ ایران سے ملنے والی گیس بھی اتنی سستی نہیں ہوگی، پاکستان کو ایران کے ساتھ اس کی قیمت کم کرانے کے لیے مذاکرات کرنے چاہیئیں۔
پاکستانی صنعتیں گیس کے بغیر نہیں چل سکتیں
سید توقیر شاہ نے کہاکہ پاکستان کو اپنی ٹیکسٹائل، کھاد اور دیگر صنعتوں کے لیے گیس کی بے حد ضرورت ہے جس سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور ریونیو بڑھتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب 2010 میں اس منصوبے کا آغاز ہوا تو اسے 66 ماہ میں مکمل ہونا تھا لیکن ایران پر تجارتی پابندیاں اس منصوبے میں تاخیر کی وجہ بنیں۔
عراق کو امریکی پابندیوں سے استثنٰی
رواں ماہ امریکا نے عراق کو ایران سے بجلی خریدنے کے لیے تجارتی پابندیوں پر استثنٰی دیا اور وہیں دوسری طرف ایران کو عراق کو بجلی فروخت کرنے کے لیے 10 ارب ڈالر کا استثنٰی دیدیا۔ عراق ایران سے بجلی خرید کر رقم ایران کے عمان میں بینک اکاؤنٹس میں جمع کرائے گا جس کو ایران استعمال کر سکے گا۔
اسی طرح سے جولائی 2022 میں امریکا نے بھارت کو روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری کے لیے تجارتی استثنٰی دیا تھا اور صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں چین، جاپان اور شمالی کوریا سمیت 8 ملکوں کو ایران سے تیل کی درآمد پر تجارتی استثنٰی دیا گیا تھا۔
ایران کی جانب سے ہرجانے کی دھمکی
اس سال جنوری میں ایران نے پاکستان کو اس منصوبے کی تکمیل کے لیے تیسرا نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان یہ منصوبہ مکمل نہیں کرتا تو ایران پاکستان کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں 18 ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کرےگا۔
اس دھمکی کے بعد پاکستان کی نگراں حکومت نے اس منصوبے کے پاکستان میں موجود 80 کلومیٹر کے ایک حصے پر کام کا فیصلہ کیا تھا اور 21 مارچ کو دفتر خارجہ ترجمان نے بتایا کہ پاکستان کو اس گیس پائپ لائن کے پاکستان میں موجود حصے پر کام کرنے کے لیے امریکی استثنٰی کی ضرورت نہیں۔
گزشتہ روز دفتر خارجہ ترجمان نے اسی معاملے پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ابھی اس گیس پائپ لائن منصوبے پر کام شروع نہیں ہوا لیکن پاکستان جو بھی کرے گا اپنے ملکی مفاد کو دیکھتے ہوئے کرےگا۔
ضرور اس منصوبے کا کوئی قابل عمل حل تلاش کریں گے، ایران میں پاکستانی سفیر
پاکستان کے ایران میں سفیر نے 16 مارچ کو تہران ٹائمز کو ایک انٹریو میں بتایا کہ پاکستان اور ایران میں تعلقات بہت بہتر ہوئے ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کے بعد ایرانی قیادت کی جانب سے مبارکباد کے پیغامات بھجوائے گئے اور ایسا طرز عمل ہی پاکستان کی جانب سے اپنایا جاتا ہے۔
ایک سوال کہ کیا ایران پر تجارتی پابندیوں کے تناظر میں پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے پر کام ہو سکے گا؟ کے جواب میں پاکستانی سفیر نے کہاکہ ہمارے اور ایران کے بہت اچھے مذاکرات چل رہے ہیں، ہمارے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ہم ضرور اس منصوبے کا کوئی قابلِ عمل حل تلاش کر لیں گے۔
پاک ایران گیس منصوبہ کیا ہے؟
پاک ایران گیس منصوبہ 2775 کلومیٹر طویل ایک منصوبہ ہے جس کا ابتدائی خاکہ 1989 میں بنا، اس کے تحت ایران نے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کو پائپ لائن کے ذریعے گیس خریداری کی پیشکش کی۔ اس سلسلے میں پاکستان اور ایران کی حکومتوں کے مابین ابتدائی گفتگو 1995 میں شروع ہوئی۔ مارچ 2013 میں اس گیس پائپ لائن کے پاکستان میں موجود حصے پر کام کا آغاز ہوا جس کا افتتاح اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے کیا تھا۔ پاکستان میں اس گیس پائپ لائن کی لمبائی 785 کلومیٹر ہے جبکہ ایران میں 950 کلومیٹر سے زیادہ ہے جس پر ایران کام مکمل کرچکا ہے۔
منصوبے کے مطابق ایران کے علاقے جنوبی پارس گیس فیلڈ سے اس پائپ لائن کا آغاز ہوگا جو پاکستان میں بلوچستان کے علاقے خضدار میں 2 حصوں میں منقسم ہو جائے گی، وہاں سے ایک حصہ کراچی جبکہ دوسرا حصہ ملتان اور پھر وہاں سے اس پائپ لائن کو بھارتی دارالحکومت دہلی تک توسیع دینے کا منصوبہ بھی ہے۔