ایک بڑی قانونی جنگ، سیاسی گرما گرمی اور انتظامی افراتفری کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان ہفتہ 18 مارچ کو توشہ خانہ کیس میں جوڈیشل کمپلیکس نیب کورٹ نمبر 1 میں پیش ہوں گے۔
عمران خان کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک بیان حلفی جمع کرایا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ہفتہ 18 مارچ کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ پہلے پیشی ایف ایٹ کورٹ کمپلیکس میں ہونی تھی تاہم اب مقام تبدیل کرکے اسے جوڈیشل کمپلیکس کے گراؤنڈ فلور پر واقع کورٹ 1 میں رکھ دیا گیا ہے۔
دوسری جانب جمعے کو لاہور ہائیکورٹ نے 9 مقدمات میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی جن میں سے 5 مقدمات اسلام آباد میں درج ہیں۔ حفاظتی ضمانت ملنے کے بعد عمران خان کو متعلقہ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
عمران خان نے لاہور زمان پارک میں اپنی گرفتاری کے خلاف شدید مزاحمت کی تھی اور اب وہ لاہور میں 4 مزید ایف آئی آرز میں بطور ملزم نامزد ہیں۔
اسلام آباد میں انہیں توشہ خانہ مقدمے میں عدالت کے روبرو پیش ہونا ہے۔ انہیں 13 مارچ کو عدالت میں پیش ہونا تھا لیکن انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا جس کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے اور اس کے بعد ایک قانونی جنگ کا آغاز ہو گیا۔
ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لیے جب اسلام آباد پولیس زمان پارک لاہور پہنچی تو اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے توشہ خانہ کیس گزشتہ سال 22 نومبر کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں دائر کیا گیا تھا جس میں عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں عمران خان کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ عمران خان نے جن اثاثہ جات کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں ان میں توشہ خانہ سے وصول کیے گئے تحائف کا ذکر نہیں۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے اس مقدمے کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 174 کی خلاف ورزی کی ہے.