پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ 909 کلومیٹر پر محیط سرحد بانٹتے ہیں جس کا زمینی اور سمندری راستہ بلوچستان کے مکران ڈویژن سے ہو کر گزرتا ہے۔ گوادر کے سمندری راستے ایران کے علاقے چا بہار کی سمندری حدود سے ملتے ہیں جبکہ چاغی، نوشکی، دالبندین، نوکنڈی، تربت، تفتان سمیت کئی اہم گزرگاہوں سے ہوتے ہوئے بلوچستان کی سرحد ایران کے سیستان سے جا ملتی ہے۔
مزید پڑھیں
پاکستان اور ایران کی سرحد پر کئی دہائیوں سے دو طرفہ تجارت کا سلسلہ جاری ہے، اگر بات کی جائے بلوچستان کے کاروبار پر ایرانی اشیاء کے انحصار کی تو صوبے کا 30 سے 40 فیصد کاروبار کا دارومدار ایرانی اشیاء پر ہے۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سابق صدر ایوان صنعت و تجارت بلوچستان فدا حسین نے بتایا کہ صوبے کا مکران ڈویژن کا مکمل انحصار ایرانی اشیاء پر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں کے پاس روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگ دو طرفہ تجارت پر زندگی کا گزر بسر کر رہے ہیں۔ چھوٹے تاجر روزانہ کی بنیاد پر اشیاء ضرورت ایران سے لاتے ہیں اور پھر انہیں فروخت کرکے اپنی زندگی کا پہیہ چلاتے ہیں۔
فدا حسین نے کہا کہ ایران سے قانونی طریقے سے 60 سے 70 اشیاء درآمد کی جاتی ہیں جن میں ایک پی جی، ڈامبر کا تیل، سیمنٹ، سریا، ٹائل، پیٹرو کیمیکل اشیاء، گھی، خوشک میوہ جات، اشیاء خورونوش سمیت بہت سی اشیاء ضرورت ایران سے بلوچستان اور پھر ملک کے دیگر حصوں میں بھجوائی جاتی ہیں۔
فدا حسین نے بتایا کہ بلوچستان اور ایران کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم ڈھائی ارب ڈالرز سے زائد ہے۔ یہ تجارتی حجم نہ صرف بلوچستان بلکہ ملکی معشیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کو دو طرفہ تجارت کے لیے کسٹم کے معاملات کو آسان کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تجارتی حجم ڈھائی سے بڑھ کر 5 ارب ڈالر تک جا سکے۔
معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان میں غیر قانونی طریقے سے بھی ایرانی سرحد سے اسمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے جس میں پیٹرول سمیت کئی اشیاء کو غیر قانونی راستوں سے بلوچستان لایا جاتا ہے۔ مکران ڈویژن اور بالخصوص صوبے کے سرحدی علاقوں میں لوگوں کا ذریعہ معاش اس سمگلنگ پر محیط ہے۔ تاہم اگر اس غیر قانونی اسمگلنگ کی روک تھام کرکے قانونی طریقوں سے کیا جائے تو کاروباری حجم مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا کاروباری طبقہ ایرانی صدر کے آئندہ دورے کو دوطرفہ تجارت کے لیے خوش آئند قرار دے رہا ہے۔