ایک الزام پر متعدد ایف آئی آر کے پیرا میٹرز کیا ہیں؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافیوں ارشد شریف، سمیع ابراہیم اور عمران ریاض کے کیسوں میں ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹرز اسلام آباد سے معاونت طلب کرلی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی نے صحافیوں ارشد شریف، سمیع ابراہیم اور عمران ریاض کے کیسوں کی تفصیلات فراہمی کے کیس کی سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے کہ ایک وی لاگ کی بنیاد پر 25 مقدمات درج ہو جاتے ہیں، اسٹیٹ کے لیول پر جو اختیار کا غلط استعمال ہے اس کو ہم نے دیکھنا ہے۔
مزید پڑھیں
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر اسلام آباد میں ایک کیس ہو تو اس آدمی نے دوسرے صوبے میں بھی جانا ہوتا ہے اس لیے اسے احتیاطا حفاظتی ضمانت لینا پڑتی ہے، یہاں آدمی کو خود بھی پتہ نہیں ہوتا ہے نہ اسٹیٹ کو پتہ ہوتا ہے کہ کون کون سا مقدمہ درج ہے۔
معزز جج نے ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ یہ آپ نے سمجھانا ہے کہ ایک الزام پر متعدد ایف آئی آر کے کون کون سے پیرا میٹرز ہیں، اس کے بعد اس ملزم کو جس کے خلاف متعدد کیسز ہیں، تفتیش کون کرے گا۔
ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر اسلام آباد نے عدالت کو بتایا ’ ہم جو دلائل دیں گے اس سے متعلق فیصلوں کا حوالہ بھی ساتھ دیں گے۔‘ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ سائبر کرائم اور تھانوں کی ایف آئی آر ہو جاتی ہیں، پولیس والوں کی وردی بھی بہت اچھی ہے مانا کہ غلطیاں ہوتی ہیں، لیکن بہت سارے ایسے ایریاز ہیں جنہیں ہم نے حل کرنا ہے۔
معزز جج نے ریمارکس دیے کہ جرم کہیں اور ہو اور پرچہ کسی اور جگہ ہو، یہ پہلو دیکھنا ضروری ہے۔ اگر یہ یہاں کھڑے ہو کر کچھ کہیں گے تو نوشکی میں پرچہ نہیں ہوگا، مثلاً یہ صحافی ہیں ان کی ایک رائے ہے کسی کو ان کی بات پسند آتی ہے کسی کو نہیں۔
اس موقع پر عدالتی حکم پر عدالتی معاونین نے دلائل مکمل کرلیے، عدالتی معاون ڈی آئی جی پنجاب پولیس کامران عادل اور خدیجہ ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ ڈی آئی جی کامران عادل نے عدالت کو بتایا کہ ہم پنجاب میں سارا نظام ڈیجیلاٹز کر رہے ہیں، ایک وقوعے کی متعدد ایف آئی آرز ہو جاتی ہیں، متعدد مقدمات درج ہونے سے گرفتاری لازمی نہیں بنتی، پروٹیکشن بھی حاصل ہوتی ہے۔
عدالت نے صحافیوں کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہمی سے متعلق سماعت 9 نو مئی تک ملتوی کرتے ہوئے ایک ہی الزام پر ایک سے زائد مقدمات درج کرنے کے حوالے سے قانونی نکات پر ڈسٹرکٹ پراسیکوٹر سے دلائل طلب کر لیے اور کہا ہے کہ آئندہ سماعت پر اگر ضرورت ہوئی تو عدالتی معاونین سے بھی مزید دلائل طلب کریں گے۔