قاتلانہ حملے کے 10 سال بعد جسم میں گولیاں اور درد موجود، حامد میر

جمعہ 19 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ انٹرویو ابتدائی طور پر گزشتہ برس شائع کیا گیا تھا جسے آج کے دن کی مناسبت سے وی نیوز کے ناظرین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔


پاکستان کے معروف اینکر حامد میر پر حملے کو آج 10 سال ہوگئے ہیں مگر آج بھی انہیں اپنے زخموں میں درد محسوس ہوتا ہے اور وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔

وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں حامد میر نے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کے محرکات اور اس دوران پیش آئے واقعات پر کُھل کر بات کی اور بتایا کہ سپریم کورٹ کا 3 رکنی کمیشن انہیں انصاف دینے میں ناکام رہا ہے۔

19 اپریل 2014 کو پاکستان کے معروف اینکر حامد میر کراچی میں ایئرپورٹ سے اپنے دفتر جا رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر حملہ کردیا جس میں انہیں 6 گولیاں لگیں تاہم وہ بال بال بچ گئے۔ حملے کے بعد حامد میر اور ان کے چینل جیو کی جانب سے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام پر حملے کا الزام عائد کیا گیا تھا تاہم فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بغیر کسی ثبوت آئی ایس آئی یا اس کے سربراہ کو حملے کا ذمہ دار قرار دینا ’افسوسناک‘ اور ’گمراہ کن‘ ہے۔

حملے کے بعد اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف نے تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل 3 رکنی کمیشن بنایا تھا جس کی رپورٹ لیک تو ہوئی مگر سرکاری طور پر جاری نہیں ہوئی تاہم حامد میر اس لیک رپورٹ کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی کمیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کے الزامات کو مفروضہ قرار دیا تھا۔

قاتلانہ حملے کی وجوہات کیا تھیں؟

حامد میر کے مطابق سال 2014 میں اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف کی حکومت سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمات چلا رہی تھی مگر اسٹیبلشمنٹ مشرف کو بچانے کے لیے ان کی عدالتوں میں غیر حاضری کے لیے مضحکہ خیز رکاوٹیں کھڑی کرتی تھی۔

اس بات کر ذکر جب حامد میر نے اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں کیا تو وزیرِاعظم نواز شریف نے انہیں اپنے دفتر بلایا اور ان سے پوچھا کہ کون مشرف کو ٹرائل سے بچانا چاہتا ہے۔ ’میں نے ابتدا میں ٹال مٹول سے کام لیا لیکن وزیرِاعظم کے اصرار پر میں نے بتایا کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام ایسا کر رہے ہیں۔ اس واقعہ کے چند منٹ بعد مجھے آگاہ کیا گیا کہ آپ نے اچھا نہیں کیا‘۔

قاتلانہ حملے سے قبل حامد میر کو کس نے کیا پیغام دیا؟

حامد میر کے مطابق اس کے بعد انہیں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ملاقات کرکے پیغام پہنچایا کہ وہ پرویز مشرف کے ٹرائل کی حمایت، بلوچستان اور لاپتا افراد کے حوالے سے کوریج سے باز آجائیں ورنہ اچھے نتائج نہیں ہوں گے۔ حامد میر کے مطابق جنرل عاصم باجوہ نے ان سے معذرت بھی کی کہ انہیں یہ ناخوشگوار فریضہ سرانجام دینا پڑ رہا ہے۔

حامد میر کے مطابق ان دھمکیوں کے بعد انہوں نے جیو نیوز کی انتظامیہ کو باقاعدہ خط لکھ کر آگاہ کردیا تھا کہ اگر ان پر حملہ ہوا تو 3 لوگ ذمہ دار ہوں گے جن میں ڈٖی جی آئی ایس آئی کے علاوہ سیکٹر کمانڈر اسلام آباد اور ایک مسلح جنگجو کا نام بھی شامل تھا جو بعد میں فوج کی تحویل سے فرار ہوگیا تھا۔

حملہ کیسے ہوا تھا؟

19 اپریل کو حامد میر کو جیو نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن کے لیے کراچی جانا تھا۔ ان کے مطابق وہ حملے کے امکان سے آگاہ تھے اسی وجہ سے انہوں نے اپنے دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے ایک دن قبل کوئٹہ کی فلائیٹ بک کروائی مگر عین وقت پر کراچی روانہ ہوگئے۔ ’جب میں کراچی ایئرپورٹ پہنچا تو اپنے اہلِ خانہ کو اطلاع دی اور ایک دفعہ یہ خیال آیا کہ واپس اسلام آباد چلا جاؤں لیکن پھر اس خیال کو جھٹک کرایئرپورٹ سے روانہ ہوا تو جیو نیوز کی پروڈیوسر مریم کا فون آگیا، اور انہیں بھی اطلاع دی‘۔

حامد میر کے مطابق کسی کام کے لیے انہوں نے اس وقت کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کو بھی فون کیا اور اسی دوران گاڑی پر فائرنگ شروع ہوگئی۔ انہوں نے فوری طور پر جیو کی پروڈیوسر کو دوبارہ اطلاع دی۔ ’اس دوران مجھے یوں لگا کہ مجھے سوئیاں سی چبھ رہی ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ گولی لگے تو وہ فوری محسوس نہیں ہوتی۔ اسی دوران میرا گارڈ مجھے کور دینے کے لیے پچھلی نشست پر آیا اور پھر مجھ پر گولیاں چلیں۔ ڈرائیور اور گارڈ سے بات چیت کے بعد فیصلہ کیا کہ سرکاری اسپتال کے بجائے پرائیویٹ اسپتال لے جایا جائے کیونکہ سرکاری اسپتال محفوظ نہیں تھا‘۔

حامد میر کے مطابق جب انہیں آخری گولی لگی اور یقین ہوگیا کہ شاید اب نہ بچ سکیں تو انہیں بیرون ملک تعلیم کے لیے گئی بیٹی یاد آئی کہ اب اس کا کیا ہوگا اور پھر وہ بے ہوش ہوگئے۔

غیر ملکی صحافیوں نے پروپیگنڈا کی وجہ سے زخم گنے

اپریل میں ہونے والے حملے کے بعد کئی ماہ تک حامد میر چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے۔ تاہم انہوں نے زخمی حالت میں سپریم کورٹ کے کمیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان قلم بند کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے ٹانکوں کی حفاظت کے لیے سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران پیٹ کے گرد حفاظتی کمرکس باندھا تو بھی میرا مذاق اڑایا گیا کہ پٹی اوپر سے باندھی ہوئی ہے اسے تو گولی ہی نہیں لگی۔ ٹی وی پر میرے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوا کہ یہ ڈرامہ کر رہا ہے اسے گولیاں لگی ہی نہیں‘۔

’ایک اینکر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حامد میر کو پیناڈول کی گولیاں لگی ہیں‘۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ جب وہ اسپتال میں داخل تھے اور گولیاں لگی ہوئی تھیں تو پروپیگنڈا کی وجہ سے کئی لوگ ان کے زخم چیک کرتے۔ ’کوئی ڈاکٹر بن کر تو کوئی تفتیشی بن کر آتے تھے اور کہتے کہ ہمیں آپ کے زخم گننے ہیں۔ میں نے کہا ڈاکٹر سے پوچھ لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں 6 گولیاں لگی ہیں مگر آپ کپڑا ہٹا دیں‘۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے حامد میر پر فیچر اسٹوری کی تو نیوز ٹیم نے آغا خان اسپتال کا دورہ کیا۔ انہوں نے اسپتال سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ 6 گولیاں لگی ہیں جبکہ کچھ اور زخم بھی ہیں۔ ’ان کی صحافی اور کیمرا مین نے بہت ندامت کے ساتھ مجھ سے کہا کہ اگر آپ بُرا نہ منائیں تو ہمیں کپڑے اتار کر زخم دکھائیں کہ آپ کو گولیاں لگی ہیں۔ میرے انکار پر اس نے اپنے سینیئر کو فون کیا۔ اس (سینیئر) نے مجھے کہا کہ ہمارا ایس او پی ہے اور آپ نے ملک کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ پر الزام لگایا ہے۔ ہمیں آپ پر یقین ہے مگر ایس او پیز ہیں اس لیے آپ دکھا دیں۔ پھر میں نے انہیں اپنے سارے زخم دکھائے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ یہاں شکار ہونے والے شخص کو ہی قصوروار ٹھہرانے کی روایت بن گئی ہے۔ ملالہ یوسفزئی پر حملہ ہوا تو ان کی بھی وکٹم بلیمنگ ہوئی۔ ’آج تک لوگ کہتے ہیں کہ پتا نہیں حامد میر کو گولیاں لگی تھیں یا نہیں‘۔

زخمی حالت میں اسکرین پر واپسی

حامد میر کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد ابتدائی چند ہفتوں تک تو وہ چلنے پھرنے سےبھی  قاصر تھے اور جب واش روم تک بھی نہیں جاسکتے تھے تو بے بسی کی وجہ سے کئی بار خیال آتا تھا کہ اس زندگی سے موت اچھی مگر ایسے مواقع پر انہیں کئی بار خواب میں مادرِ ملت فاطمہ جناح آئیں جس سے انہیں حوصلہ ملا۔

انہی دنوں ان کا چینل جیو اور اس وقت کی حکومت شدید دباؤ میں تھے۔ جیو کے کئی بڑے اینکرز چینل کو چھوڑ کر جاچکے تھے اور ادارہ بحران کا شکار تھا ایسے میں حامد میر نے فیصلہ کیا کہ وہ اگست میں دوبارہ اپنا پروگرام شروع کریں گے۔ ’میں وہیل چیئر پر دفتر آیا تھا اور بیساکھیوں کے سہارے چلتا تھا‘۔

مجھے آج تک انصاف نہیں ملا

حامد میر پر حملے کے 2 دن بعد وزیرِاعظم نواز شریف کی ہدایت پر سپریم کورٹ کے 3 ججوں پر مشتمل  کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی اس کمیشن کی سربراہی کر رہے تھے جو بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے۔ ان کے علاوہ اس کمیشن میں جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس اقبال حمید الرحمان شامل تھے۔

’سپریم کورٹ کے 3 جج مجھے آج تک انصاف نہیں دے سکے۔ سپریم کورٹ کے 3 ججوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کا انصاف شخصیت کے حساب سے کیوں ہوتا ہے۔‘

حامد میر نے بتایا کہ کمیشن کو چند ہفتوں بعد رپورٹ دینی تھی مگر آج تک انہیں سرکاری طور پر رپورٹ نہیں دی گئی۔ ’پورے ایک سال بعد ایک جعلی سی رپورٹ سوشل میڈیا پر لیک کی گئی جس میں کہا گیا کہ حملے کا کوئی ثبوت نہیں ملا‘۔

اس وقت برطانوی ادارے بی بی سی نے عدالتی کمیشن کی رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص تفتیش کی وجہ سے اصل مجرموں تک پہنچنے میں ناکامی ہوئی تھی۔

کمیشن کی 41 صفحات پر مبنی رپورٹ اب تک سرکاری سطح پر جاری نہیں کی گئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق ’کمیشن کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کے افسران نے اپنے حلفیہ بیانات میں اس حملے سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم میڈیا کے تمام افراد نے اس کی جانب انگلیاں اٹھائیں۔ ہمارے خیال میں ان الزامات کی بنیاد شکوک و شبہات اور کہے سنے پر مبنی تھی لہٰذا کمیشن کی مدد سے قاصر تھے‘۔

رپورٹ میں پاکستانی میڈیا میں غلط معلومات کو خبروں کے طور پر پیش کرنے اور بریکنگ نیوز کے مسئلے کو سنگین قرار دیا گیا۔ ’نہ صرف ملک بلکہ ہر سرکاری ادارے کی بدنامی کے لیے ہر حربہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ہر بات کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے‘۔

‘آج پاکستان میں حامد میر تو کیا کوئی صحافی محفوظ نہیں’

حامد میر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ آج 10 سال بعد خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ’میں تو کیا آج پاکستان میں کوئی بھی صحافی محفوظ نہیں ہے‘۔

’19 اپریل 2014 کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اس کے بعد صحافیوں نے تو ساتھ دیا مگر مالکان میں تقیسم پیدا کی گئی جس سے صحافت کے دشمنوں نے فائدہ اٹھایا۔ ہم نے اکٹھے ہوکر مقابلہ نہیں کیا۔‘

حامد میر نے کہا کہ سینیئر صحافی ابصار عالم پر اسلام آباد میں حملہ ہوا اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ملی مگر کچھ نہیں ہوا۔ دوسری طرف اے آر وائی کے اینکر ارشد شریف کو گزشتہ سال کینیا میں مارا گیا مگر ان کے قاتلوں کو کوئی نہیں پکڑ سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ آزاد ہوگی تو صحافت آزاد ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp