گلگت بلتستان: برفانی چیتے اور انسان کی لازوال دوستی کی سچی داستان

بدھ 24 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ 2012ء کا آخری اور ایک سرد دن تھا۔ گلگت بلتستان کے ایک دور افتادہ علاقے میں وہ اپنی ماں کے ساتھ دریا عبور کررہا تھا کہ اسی دوران دریا کی یخ بستہ موجیں اسے اپنے ساتھ بہا لے گئیں۔ نجانے وہ کب تک بے رحم دریا کے ساتھ ساتھ بہتا رہا۔ آخرکار کچھ لوگوں کی اس پر نظر پڑی۔ پہلے پہل تو وہ سمجھے کہ چمڑے میں لپٹی کوئی شے پانی میں بہے جارہی ہے۔ تاہم قریب جاکر دیکھنے پر انہیں معلوم پڑا کہ یہ کوئی شے نہیں بلکہ برفانی چیتے کا بچہ تھا جو برفیلے پانی اور شدید سردی کی وجہ سے بے ہوش ہوچکا تھا۔

ہنزہ سوست کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’سرتیز‘ کے رہائشی اور محکمہ جنگلی حیات کے ملازم پرویز اقبال نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اس واقعہ کے بارے میں مزید بتایا: ’اس برفانی چیتے کی عمر 6 ماہ تھی؛ دسمبر میں شدید سردی کی وجہ سے دریا کا پانی برف بن جاتا ہے لیکن اس کے باوجود میں نے اسے دریا سے نکالا اور اپنے کیمپ میں لے جا کر اسے ایک گرم جگہ پر لٹا دیا، جس کے تھوڑی دیر بعد وہ ہوش میں آگیا تھا۔‘

’ہم نے 3 دن تک اس کی ماں کا انتظار کیا مگر وہ کہیں نظر نہ آئی‘

پرویز اقبال نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی لگاتار 3 دن تک برفانی چیتے کی ماں کے انتظار میں اسے دریا کے کنارے چھوڑ کر آتے رہے مگر اس کی ماں کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ ان کا کہنا تھا، ’ہماری  ٹیم نے اس بچے کو ریسکیو کرنے کے بعد اس کا نام  ’لولی‘ رکھا تھا، یہ ایک مادہ چیتا تھی جو اب نلتر میں محکمہ جنگلی حیات اور اسنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے زیرنگرانی ہے۔‘

سوشل میڈیا پر آرٹیفیشل انٹیلیجینس کی مدد سے بنائی گئی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں ایک بچی کو برفانی چیتے کے ساتھ بیٹھا دکھایا گیا تھا۔ برفانی چیتے کی انسان سے دوستی ایک تصور ہی تھا لیکن پرویز اقبال اور لولی کی دوستی نے ثابت کیا کہ برفانی چیتا اور انسان آپس میں دوست بھی ہوسکتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ان دونوں کی لازوال دوستی کی داستان سنی اور سنائی جاتی ہے اور اسی وجہ سے بعض لوگ ’گلمینہ‘ کی کہانی کو بھی ایک سچی کہانی ماننے لگے ہیں۔

پرویز اقبال کا کہنا ہے، ’گلمینہ کی کہانی فرضی تھی مگر جس برفانی چیتے کو میں نے پالا، وہ میرے ساتھ میرے گھر پر ہی رہتا تھا؛ ہم جہاں بھی جاتے وہ ہمارے پیچھے آتا؛ وہ ایک پالتو جانور کی طرح ہمارے ساتھ گھر میں رہتا تھا اور بچوں کے ساتھ کھیلتا تھا، اس وقت ہمارے پاس کیمرے والے موبائل فون نہیں تھے، اسی لیے ہم اس کی کوئی تصویر یا ویڈیو نہیں بنا پائے۔‘

Leo کون تھا؟

پرویز اقبال بتاتے ہیں کہ Leo بھی ایک برفانی چیتا تھا؛ وہ صرف 6 دن کا تھا جب نلتر میں محکمہ جنگلی حیات نے اسے ایک شکاری سے اپنی تحویل میں لیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ Leo کی ماں کا بھی کسی کو کچھ نہیں پتہ تھا۔

 پرویز اقبال نے بتایا، ’Leo کو میں اپنی گود میں اٹھائے پھرتا تھا اور اسے فیڈر میں بکری کا دودھ پلاتا تھا؛ Leo کو میں نے ڈیڑھ سال تک اپنے بچوں کی طرح پالا تھا؛ وہ میرے اور مال مویشیوں کے ساتھ دور پہاڑوں تک جاتا اور پھر واپس بھی آجاتا تھا۔‘

’وہ مارخور کا پیچھا کر رہا تھا‘

پرویز اقبال نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا، ’ایک دن Leo مارخور کا پیچھا کرتے ہوئے دور پہاڑوں میں چلا گیا؛ چونکہ محکمہ جنگلی حیات اس کی حفاظت کا ذمہ دار تھا لہٰذا ہماری دوڑیں لگ گئی لیکن Leo کہیں نہیں ملا؛ آخر 2 گھنٹے گزرنے کے بعد وہ خود ہی واپس کیمپ پہنچ گیا۔‘

لولی اور Leo اب کہاں ہیں؟

پرویز اقبال کی ان دونوں برفانی چیتوں سے محبت اور دوستی دیدنی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ Leo کو ان سے بچھڑے تقریباً 18 برس ہوچکے ہیں اور اس کی یادیں اب بھی ان کے ذہن میں تازہ ہیں، محکمہ جنگلی حیات نے Leo کو ایک معاہدے کے تحت نیو یارک کے ایک چڑیا گھر کے حوالے کردیا تھا۔ لولی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اسے محکمہ جنگلی حیات نے نلتر منتقل کردیا تھا جہاں وہ گزشتہ 10 سال سے محکمہ وائلڈ لائف کے ملازم غلام رسول کے زیرنگرانی ہے۔

غلام رسول نے وی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ وہ لولی وقت پر کھانا اور پانی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 10 سال ہوگئے ہیں لیکن لولی نے کبھی ان کے اوپر حملہ نہیں کیا، اگر اسے آزاد چھوڑ دیا گیا تو وہ آبادی میں جاکر نقصان پہنچائے گی کیونکہ اس نے کبھی شکار کرنا سیکھا ہی نہیں۔

پرویز اقبال کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں برفانی چیتوں کا شکار کیا جاتا ہے اور انہیں اس لیے بھی مار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ چیتے  آبادی میں گھس کر مال مویشیوں کا نقصان کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ گلگت بلتستان میں جانوروں کی کئی اقسام معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان میں برفانی چیتا، مارکو پولو بھیڑ، ہمالیائی بھورا ریچھ، کالا ریچھ، کستوری ہرن، نیلی بھیڑ اور لداخ اڑیال وغیرہ شامل ہیں۔ وائلڈ لائف افسر محمد جعفر کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے غیرقانونی شکار پر پابندی لگائی گئی ہے جس کے باعث جنگلی حیات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp