سپریم کورٹ نے وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں اور اداروں کو فوری طور پر اپنے ناجائز قبضے کو 3 دن میں خالی کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ 3 دن بعد تمام تجاوزات متعلقہ ادارے مسمار کر دیں، کوئی یونیفارم پرسن قانون سے مبرا نہیں، رکاوٹیں ہٹانے پر اٹھنے والے تمام اخراجات کراچی میونسپل کارپوریشن متعلقہ ادارے کے سربراہ سے وصول کرے۔
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کراچی تجاوزات کیس میں کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کے متاثرین کی درخواست پر سماعت کے دوران سندھ حکومت کو متاثرین کا معاملہ دیکھنے کی ہدایت کردی۔
دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دیکھتے نہیں، نیول ہیڈ کوارٹرز ، گورنر ہاؤس، چیف منسٹر ہاؤس، رینجرز ہیڈکوارٹرز، سب نے فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے، سرکار جہاں تجاوزات کرتی ہے وہاں زیادہ سزا ہونی چاہیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ ان مقامات پر سیکیورٹی کے ایشوز ہیں یہاں تک کے بم حملے ہوچکے ہیں، جس پر چیف جسٹس بولے؛ تو پھر آپ چلے جائیں کہیں اور، خالی کردیں یہ جگہ، کہیں محفوظ جگہ چلے جائیں، عوام پر حملے ہوتے رہیں اور آپ محفوظ رہیں، یہ کہاں کا قانون ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر زیادہ ڈر لگتا ہے تو کسی دور دراز علاقے میں جاکر بیٹھ جائیں، سیکیورٹی کے نام پر سڑکوں کو بند مت کریں، جگہ جگہ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، میئر بھی آئے ہوئے تھے، کہاں ہیں، بجلی کے کھمبے گراتے ہیں وہ پوری سڑک کھود کر چلے جاتے ہیں، کل لگاتے ہیں کیس، بتائیں تفصیل یہ جناح کورٹ کس قانون کے تحت رینجرز کو دیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کی سپریم کورٹ رجسٹری آمد سے قبل باہر سڑک بھی بند تھی، جو انہوں نے کھلوائی، آئی جی پولیس کو کہا ہے اب روٹ لگائیں گے تو توہین عدالت کا نوٹس ملے گا، تھوڑی سی زندگی ہے اس کو بچاتے رہیں، کیا طریقہ ہے وی آئی پی بنے پھرتے رہیں۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ رینجرز ہیڈکوارٹر کہاں ہے اور باہر فٹ پاتھ کہاں ہے، بولے؛ دنیا میں کہیں ہوتا ہے ایسا، جائیں امریکا اور دیکھ کر آئیں، کراچی میونسپل کارپوریشن کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے بولے؛ آپ کیوں نہیں ہٹاتے رینجرز ہیڈکوارٹر کے سامنے سے تجاوزات، ہٹائیں یہ سب ، چھوٹے لوگوں کے گھر توڑ دیئے یہ بھی ہٹائیں، بعد میں معاوضہ دے دیجیے گا۔
’خطرہ ہے تو کہیں اور چلے جائیں آپ لوگ،گورنر ہاؤس کے اندر رکھ دیں کنٹینرز، باہر کیوں رکھتے ہیں؟ پبلک کو پریشان کرنا چاہتے ہیں، وفاقی و صوبائی حکومت قانون سے مبرا نہیں ، ہم کہتے ہیں سپریم کورٹ کے سامنے اگر تجاوزات ہیں تو وہ بھی توڑ دیں۔‘