گزشتہ برس 21 اکتوبر کو نواز شریف جب لندن سے لاہور پہنچے اور مینار پاکستان پر ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کیا تو ان کی اس پہلی تقریر سے یہ تاثر ملا کہ وہ بدلہ لینے نہیں بلکہ پاکستان کو آگے بڑھانے کی بات کررہے ہیں، انہوں نے تقریباً ڈیڑھ سے 2 ماہ لگا کر پارٹی کے ان لوگوں کو ٹکٹس دیے جو جیتنے کے قابل تھے۔
مزید پڑھیں
اس محنت پر پانی اس وقت پھر گیا جب 8 فروری کو عام انتخابات کا دن آیا، عوام نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے مزاحمت کے بیانیے کی پذیرائی کی، نواز شریف کے مفاہمت کے بیانیے کو بظاہر عوام نے قبول نہیں کیا، عام انتخابات کے انعقاد کو تقریباً ڈھائی ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔
سینئر لیگی رہنماؤں کے مطابق ن لیگ اپنی پالیسوں اور اپنے بیانیے پر نظر ثانی کر رہی ہے، لیگی قائد نواز شریف کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ سیاست میں مزاحمت اور مظلومیت کا ووٹ ہوتا ہے، مفاہمت کا ووٹ زبردستی کا ووٹ ہوتا ہے، نواز شریف دوبارہ سے پارٹی صدر بن کر پارٹی کی ازسر نو تنظیم سازی اور عمران خان کے بیانیے کا سیاسی توڑ کریں گے۔
سینئر لیگی رہنما کے مطابق اگر ایسا نہ کیا گیا تو پارٹی تتر بتر ہوجائے گی، نواز شریف نے چین روانگی سے قبل کچھ ملاقاتوں میں رائے مانگی ہے کہ کس طرح پارٹی میں دوبارہ جان پڑ سکتی ہے، نواز شریف کو بتایا گیا کہ مخلوط حکومت کی جانب سے اگر صرف عوامی ریلیف پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے مہنگائی کو کنٹرول کر لیا جائے اور اپنا بنانیہ موثر بنایا جائے تو عوامی قبولیت ممکن ہوسکتی ہے۔
مزاحمت کا بیانیہ کیسے بنےگا؟
سینئر لیگی رہنما نے بتایا کہ نواز شریف نے پارٹی صدر بننے کی خواہش ظاہر نہیں کی ہے، البتہ کچھ سرکردہ افراد نے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ نواز شریف پارٹی صدر کے طور پر پارٹی معاملات دیکھیں اور جہاں ضرورت ہو وہاں نئے چہروں کو متعارف کرایا جائے، اس ضمن میں سیکریٹری جنرل احسن اقبال بھی تبدیل کیے جاسکتے ہیں، باقی ضلعی صدور کے معاملات بھی دیکھے جائیں گے۔
وی نیوز کی جانب سے پوچھے گئے مزاحمت کے بیانیہ کی تشکیل سے متعلق سوال پر سینئر مسلم لیگی رہنما نے بتایا کہ ان کی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی کاروبار حکومت میں مداخلت کو بند کرنے کا بیانیہ بنائے گی، نواز شریف پچھلے 32 سالوں سے مزاحمت کا بیانیہ لے کر جدوجہد کررہے ہیں ہم نے انہیں ایک لمحے کے لیے بھی مزاحمتی بیانیے سے پیچھے ہٹتے نہیں دیکھا۔
’اگر عام انتخابات میں عوام مسلم لیگ ن کو ووٹ دیتی اور ہم اکیلے حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتے تو نواز شریف بطور وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کردار روکنے کی بھر پور کوشش کرتے، وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا حکومتیں بنانے اور گرانے میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔‘
سینئر لیگی رہنما کے مطابق نواز شریف سمجھتے ہیں کہ مزاحمتی بیانیہ بنانے کے لیے اب ساری جماعتوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ وہ عمران خان سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں تاکہ ساری جماعتیں اس ایک بات پر متفق ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
لیگی رہنما کے مطابق اگر عمران خان ان کے ساتھ نہیں بھی بیٹھتے تب بھی نواز شریف ووٹ کو عزت دو کابیانیہ لے کر آگے چلیں گے، وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت میں رہتے ہوئے بھی کسی موقف پر ڈٹا جاسکتا ہے۔
’جیسے محسن نقوی کی بطور وزیر داخلہ بعض معاملات میں مزید مداخلت ہوئی تو پھر وہ ہی ہوگا جو بڑے میاں صاحب پچھلے بتیس سال سے کرتے آرہے ہیں، پاکستانی عوام کو نواز شریف کے بارے میں غلطی فہمی ہوگئی ہے ہم اس غلط فہمی کو دور کریں گے۔‘