وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو پاکستان کا ڈپٹی وزیراعظم مقرر کردیا گیا ہے۔ ڈپٹی وزیراعظم کے آئین پاکستان میں کوئی بھی اختیارات واضح نہیں ہیں اس لیے یہ سوال زبان زد عام ہے کہ ڈپٹی وزیراعظم کے کیا اختیارات ہوں گے؟
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں اور آئینی ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور ان کے اختیارات کیا ہوں گے؟۔
مزید پڑھیں
سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے بتایا کہ ڈپٹی وزیراعظم نام کا پاکستان کے آئین میں کوئی عہدہ نہیں ہے لیکن پہلی مرتبہ کسی کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر نہیں کیا گیا، اپنی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے ق لیگ کو حکومت میں شامل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی نے چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ دیا تھا، لیکن ساتھ میں واضح کیا گیا تھا کہ کوئی بھی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ متحدہ پاکستان کے وقت ذوالفقار بھٹو بھی وزیراعظم نورالامین کے ساتھ ڈپٹی وزیراعظم بنے تھے۔
اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم بنا کر اسپیشل برتاؤ کیا گیا، مجیب الرحمان شامی
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمٰن شامی نے کہاکہ ڈپٹی وزیراعظم مقرر کرکے اسحاق ڈار کے ساتھ کوئی اسپیشل برتاؤ کیا گیا ہے اور ان کی ٹوپی پر ایک اور پر لگا دیا گیا ہے، اب وزیراعظم شہباز شریف جو بھی اختیارات بہتر سمجھیں گے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کو دیں گے اور آئندہ 2 روز میں اس کا نوٹیفکیشن بھی آ جائےگا۔
مجیب الرحمٰن شامی نے کہاکہ اگر اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کیا گیا ہے تو جو اختیارات وہ مانگیں گے وہ بھی ان کو دیے جائیں گے۔ ’ہو سکتا ہے کہ ان کو یہ اختیار بھی دیا جائے کہ وزیراعظم کی غیر موجودگی میں ڈپٹی وزیراعظم، وزیراعظم کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے کابینہ کی سربراہی سمیت دیگر امور بھی نمٹائے‘۔
نواز شریف کے ساتھ ذاتی تعلقات کی وجہ سے اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم بنایا گیا، انصار عباسی
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے کہاکہ اسحاق ڈار مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور نواز شریف کے قریبی ساتھی ہیں اس لیے انہیں خاص مقام دینے کے لیے ڈپٹی وزیراعظم مقرر کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسحاق ڈار کو پہلے چیئرمین سینیٹ بنانے کا فیصلہ ہوا تھا تاہم پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والی ڈیل کی وجہ سے وہ کام نہ ہوسکا، پھر وزیر خزانہ تعینات کرنا تھا تاہم محمد اورنگزیب کی تعیناتی کے باعث وہ بھی نہ ہوسکا۔ ’اب اسپیشل مقام دینے کے لیے ڈپٹی وزیراعظم مقرر کیا گیا ہے، یہ عہدہ محض نواز شریف کے ساتھ ذاتی تعلقات کے باعث اسحاق ڈار کو دیا گیا ہے‘۔
انصار عباسی نے کہاکہ آئین پاکستان میں ڈپٹی وزیراعظم کا نام تک نہیں ہے اختیارات تو بہت دور کی بات ہے۔ ڈپٹی وزیراعظم صرف نام کا عہدہ ہے جبکہ اس کے اختیارات کوئی نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت وزیراعظم چلاتا ہے جس کے بعد وزرا اور دیگر افسران معاملات چلاتے ہیں، ان سب کے اختیارات آئین میں واضح ہیں لیکن ڈپٹی وزیراعظم کا نہ کوئی عہدہ ہے اور نہ ہی اس کے کوئی اختیارات ہیں۔
وزیراعظم کو اختیار ہے کہ وہ ڈپٹی وزیراعظم کو اختیارات سونپ دیں، خاور گھمن
سینیئر صحافی خاور گھمن کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار مسلم لیگ ن کی حکومت میں بطور وزیر خزانہ کام کر چکے ہیں، انہیں وزیر سے بڑھ کر اختیارات دیے جاتے تھے اور تصور کیا جاتا تھا کہ اسحاق ڈار کو وزیراعظم کے بعد سب سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ تمام کمیٹیوں کی سربراہی اور اپوزیشن سے مذاکرات سمیت تمام سیاسی معاملات بھی اسحاق ڈار سنبھالتے تھے تاہم اس دور میں اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ تعینات نہیں کیا گیا جس سے وہ ناخوش تھے اس لیے اب انہیں خوش کرنے کے لیے ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا ہے۔
خاور گھمن نے کہاکہ ڈپٹی وزیراعظم کے اختیارات کے حوالے سے آئین بالکل خاموش ہے لیکن وزیراعظم کو اختیار ہے کہ وہ اب مقرر ہونے والے ڈپٹی وزیراعظم کو اختیارات سونپ دیں، آئین کے آرٹیکل 90 اور 91 کے مطابق ایک وزیر کا فیصلہ کابینہ کا فیصلہ تصور کیا جائے گا اور وزیراعظم کسی بھی فیصلے سے قبل کابینہ کو اعتماد میں لیں گے اور وزرا کی منظوری سے فیصلے لیے جائیں گے، اگر اسحاق ڈار کو اختیارات دینا ہیں تو انہیں وزیراعظم ہی بنا دیا جائے۔