بلوچستان کے بڑیچ پشتون قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی جامعہ کراچی میں؛ میری شاگرد تھی۔ ذہین، محنتی اور بہت ذمے دار۔ چھٹی تو وہ کبھی کرتی ہی نہیں تھی۔ ایک بار وہ اکٹھے دو تین ہفتے غائب رہی۔ جامعات میں طلبہ اس طرح چھٹیاں نہیں کرتے۔ کریں تو ان کے ساتھی تحقیق کر کے جلد ہی معلوم کر لیتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا لیکن اس کے بارے میں سوائے اس کے کوئی خبر نہ مل سکی کہ اس کا خاندان شہر میں نہیں شاید کوئٹہ گیا ہوا ہے۔
وہ طالبہ لوٹی تو اس کی کیفیت مختلف تھی، یوں سمجھ لیجیے کہ بجھی ہوئی تھی۔ تعلیمی سرگرمی میں بھی اس کا دل بس مجبوری سے ہی لگتا تھا۔ معلوم ہوا کہ چند روز قبل اس کا بھائی لا پتہ ہوا۔ پھر ایک روز کوئی اس کی مسخ شدہ لاش گھر کے دروازے پر پھینک گیا۔ میں نے اس واقعے کا تذکرہ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک معروف صحافی اور اینکر سے کیا۔ ان صاحب کو بلوچستان کے روڑے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ صوبے کے گوشے گوشے سے واقف ہیں اور گزشتہ چند دہائیوں کے دوران میں وطن عزیز کے اس گوشے پر جو کچھ بیت چکی ہے، انھیں ازبر ہے۔
بتایا کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، کسی مسجد کی حفاظت پر متعین پویس کے دو اہل کاروں پر فائرنگ کر دی گئی۔ فائرنگ سے ایک جوان تو موقع پر ہی شہید ہو گیا۔ شہید کا ساتھی اگر چہ زخمی ہو گیا تھا لیکن اس میں اتنی سکت ابھی باقی تھی کہ وہ حملہ آوروں پر جوابی حملہ کر سکتا۔ اس نے زمین پر پڑے پڑے ہی بندوق سیدھی کی اور فائر کھول دیا۔ ایک حملہ آور تو موقع پر ہی کھیت رہا لیکن دوسرا زخمی ہو گیا۔ اسی دن کچھ دیر کے بعد خبریں چلیں کہ سمنگلی روڈ ( ایئرپورٹ روڈ) پر ایک نوجوان کو موٹر سائیکل سمیت جلا دیا گیا ہے۔
‘ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک ایسا واقعہ جس کا واحد بچ رہنے والا ایک مضروب بہ مشکل اسپتال ہی پہنچا ہو گا یا شاید نہ پہنچا ہو، اس پر حملہ کرنے والے پر جوابی کارروائی بھی ہوگئی؟ ‘
اینکر کہنے لگے۔
‘ پھر یہ کیا تھا؟’
وہ کہنے لگے کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود حملہ آوروں کے ساتھی اپنے ساتھیوں کا پیچھا کرتے رہتے ہیں اور جب کبھی انھیں موقع ملتا ہے، وہ اپنے ہی ساتھیوں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
‘ جیسے اس موٹر سائیکل والے حملہ آور کے ساتھ ہوا؟’
‘ جی، بالکل جیسے اس موٹر سائیکل والے ساتھ ہوا’
انھوں نے تصدیق کی۔
رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے لوگوں کے غائب ہونے یا غائب کر دیے جانے کا رجحان ستر کی دہائی میں شروع ہوا۔
سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے ایک برآوردہ راہ نما اور سیاست دان تھے۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد وہ صوبے کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ملک کے بعض دیگر حصوں کے بارے میں لوگ اکثر تشویش کے ساتھ بات کیا کرتے تھے۔ شکست کی نفسیات بہت پیچیدہ ہوتی ہیں۔ خوف لوگوں کے ذہنوں میں عجیب طرح سے رچ بس جاتا ہے اور ہر چیز مشکوک لگتی ہے۔ ان ہی دنوں یہ باتیں عام تھیں کی پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کو اکٹھا کر کے گریٹر بلوچستان کا کوئی منصوبہ زیر عمل ہے کوئی دن جاتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی طرح یہاں بھی گڑ بڑ شروع ہو جائے گی۔ ایسی کوئی گڑ بڑ تو نہ ہوئی لیکن کسی صحافی نے مینگل صاحب سے یہ سوال ضرور پوچھ لیا۔ مینگل صاحب نے کہا:
‘ اگر کوئی صوبہ بھی پاکستان کے ساتھ نہ رہا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ لیں گے۔’
ان دنوں بلوچستان میں کوئی بغاوت تو نہ ہوئی نہ کوئی علیحدگی کی سازش ہوئی۔ البتہ سیاسی جھگڑے ضرور شروع ہو گئے۔ ان اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور صوبے کے حکمران یکایک غدار قرار پا گئے۔ اس المیے کی کہانی کیا تھی؟ سال 2005ء میں مجھے خود سردار عطا اللہ مینگل سے سننے کا موقع ملا۔ سردار صاحب اگرچہ نجیب الطرفین بلوچ تھے لیکن صاحب مطالعہ بزرگ تھے۔ ہمارے سیاست دانوں کی پہلی نسل کی خوبی یہی تھی۔ مجھے ان سے کئی بار گفتگو کے مواقع ملے، مجھے لگتا تھا کہ تاریخ اور سیاسیات کے گہرے مطالعے کے ساتھ اردو ادبیات کا گہرا مطالعہ بھی انھوں نے کر رکھا ہے۔ ان کی گفتگو کا ایک امتیاز تو یہ تھا اور دوسرا امتیاز یہ تھا کہ وہ اپنا سیاسی مؤقف اور تجزیہ بڑے غیر جذباتی انداز میں ٹھوک بجا کر پیش کیا کرتے تھے لیکن وہ گفتگو مختلف تھی۔
میں نے ان سے سوال کیا کہ ایک زمانہ تھا جب آپ بلوچستان کو پاکستان کا نام دینے کی باتیں کیا کرتے تھے لیکن اب آپ پاکستان کے مستقبل سے مایوس دکھائی دیتے ہیں؟
یہ سوال سن کر لحظہ بھر کے لیے وہ خاموش ہو گئے پھر انھوں نے بتایا کہ تم جانتے ہو انھوں نے میرے بیٹے کو پہلے لا پتہ کیا پھر جان سے مار دیا۔ اس کی قبر کہاں ہے، اس سوال کا جواب آج تک کسی کو معلوم نہیں ہے۔ یہ کہتے ہوئے بلوچستان کے اس مضبوط سردار کی آواز بھرا گئی، آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور وہ کچھ دیر تک بات نہ کر سکے۔ بلوچستان کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے بزرگ صحافی اور دانشور کہتے ہیں کہ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس واقعے کی ابتدا کب سے ہوئی، پورے اعتماد کے ساتھ دعویٰ کیا جا سکتا ہےکہ تب سے ہوئی جب اسد اللہ مینگل کو غائب کیا گیا پھر جانے اسے زمین کھا گئی یا آسمان۔
اسد اللہ مینگل کے سانحے کو بیتے اب کم و بیش نصف صدی ہوتی ہے۔ اس کے بعد حالات ایک ڈگر پر آئے اور بہت سے سکہ بند بلوچ قوم پرست سیاست دان ہی نہیں خود سردار عطا اللہ مینگل کے صاحب زادے اختر جان مینگل بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے۔ یہ معاملات ایسے ہی رہتے اگر بیچ میں جنرل مشرف کا زمانہ نہ آ جاتا۔ یہ وہی زمانہ ہے جب انھوں نے نواب اکبر بگٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمھیں معلوم ہی نہیں ہو گا کہ کہاں سے تمھیں ہٹ کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے لیے یہ زمانہ بدقسمت ثابت ہوا۔ اسی زمانے میں بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے کے حق میں ووٹ دینے والے نواب اکبر بگٹی کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس کے بعد بدقسمتی کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
یہی زمانہ ہے جب صوبے میں لبریشن آرمیز بننے کی خبریں گرم ہوئیں اور بہت سے مسلح گروہوں نے متحرک ہو کر صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیں۔ دہشت گردی کا یہی زمانہ ہے جس میں یہ شکایت عام ہوئی کہ سلامتی کے ادارے لوگوں کو غائب کر دیتے ہیں۔ انھیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا جاتا ہے یا غائب کر دیا جاتا ہے۔ اسی قسم کی شکایات اور اصلاح احوال کے مطالبات تھے کہ حکومت پاکستان نے ایک مسنگ پرسن کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن کا دعویٰ ہے کہ جتنے افراد کے لاپتہ ہونے کی شکایت ہے، ان میں سے 80 فیصد کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ ان 80 فیصد افراد کی اصل تعداد کیا ہے اور بازیاب ہوجانے والے لوگ کتنے ہیں؟ ویسے تو اس سوال کا جواب زیادہ آسان نہیں لیکن چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے زمانے میں ایک بار بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کی تھی۔ لاپتہ افراد کا معاملہ بھی اس مقدمے کا حصہ تھا۔ عمومی تاثر یہی تھا کہ جیسے ہی کیس کی سماعت شروع ہو گی، لاپتہ افراد کے لواحقین عدالت پر یلغار کر دیں گے اتنی بڑی تعداد میں مقدمات سامنے آ جائیں گے کہ شاید سنبھالنا مشکل ہو جائے۔
‘ پھر کتنے مقدمات سامنے آئے؟’
میرے اس سوال پر مقدمے کو شروع سے آخر تک کور کرنے والے ایک سینئر صحافی نے جواب دیا:
‘ صرف پچاس’
تو پھر سوال یہ ہے کہ لاپتہ افراد کی اتنی بڑی تعداد کا تاثر کیوں ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب دیتا ہے اور کوئی حالات کی کج ادائی کو دیکھتے ہوئے طرح دے جاتا ہے۔ کوئٹہ کے ایک صحافی نے براہ راست جواب دینے کے بہ جائے ایک اشارہ دیا۔
انھوں نے سال 2024ء کے بلوچستان میں ایرانی حملے کے جواب میں پاکستانی فورسز کی جانب سے کارروائی میں مارے جانے والوں کے بارے میں سوال کیا کہ جب اس حملے میں آٹھ، نو افراد کی ہلاکت کی خبر آئی تو اسلام آباد میں ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں ہونے والے دھرنے سے کیا خبریں آئیں؟
لاپتہ افراد کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے یہ واقعہ اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے ایران میں جوابی حملے کے وقت اسلام آباد میں دھرنا ابھی جاری تھا اور اس میں شریک خواتین جن لاپتہ افراد کی تصاویر کی نمائش کر رہی تھیں، خود ان دھرنا دینے والوں کا اپنا بیان تھا کہ ایران میں مارے جانے والے افراد وہی ہیں جن کی بازیابی کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ یوں اس واقعے میں پہلی بار یہ حقیقت سامنے آئی کہ جن لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، وہ لوگ اکثر اپنی آزادانہ خواہش کے تحت پاکستان کی حدود سے باہر کسی تربیتی کیمپ میں ہوتے ہیں۔ باخبر لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کے کیمپ ایران میں بھی ہوتے ہیں اور افغانستان میں بھی۔
‘ کیا اس طرح کے کیمپ بھارت میں بھی ہوتے ہیں؟’
اس سوال کا جواب دو طرح سے آتا ہے۔ بعض باخبر لوگ جواب دیتے ہیں کہ نہیں۔ بھارت میں ایسے کیمپ نہیں ہیں لیکن بعض اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ بھارت ان معاملات سے لاتعلق نہیں۔ علیحدگی پسند مسلح جتھوں کے بہت سے سرغنے بھارت آتے جاتے رہتے ہیں۔ بھارت انھیں مالی وسائل بھی فراہم کرتا ہے، اسلحہ بھی دیتا ہے اور اس نے اپنا تربیتی نظام بھی قائم کر رکھا ہے جس کا زندہ ثبوت بھارتی فوج کے حاضر سروس افسر کل بھوشن یادیو کی صورت میں موجود ہے جو بلوچستان کی سرزمین پر تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا اور پاکستان نے اسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا۔ تو معلوم ہوا کہ لاپتہ افراد کی ایک قسم وہ ہے جو بہ قائمی ہوش و حواس بیرون ملک مقیم ہے۔ ان میں ایک قسم ایسے لوگوں کی بھی ہے جنھیں فراری کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ فراری وہ مسلح گوریلے ہیں جو کسی کے بہکاوے میں آ کر یا اپنی مرضی سے پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
ذمے داران بتاتے ہیں کہ یہی فراری ہوتے ہیں یا دہشت گردی کر کے ملک سے بھاگ جانے والے ہوتے ہیں جو صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں، سرکاری تنصیبات اور دفاعی اداروں پر حملے کرتے ہیں یا پنجاب سے آنے والے مزدوروں یا مسافروں کو شناختی کارڈ دیکھ کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ پکڑے جاتے ہیں لیکن ان پر مقدمے چل پڑے ہیں اور نہ انھیں سزا ہو پاتی ہے۔ سبب یہ ہے کہ دہشت گردی کی اس صورت حال میں مقدمہ چلانے کا کوئی نظام ہی ہمارے یہاں موجود نہیں ہے چوں کہ کوئی نظام نہیں ہے، اس لیے نہ کوئی گواہی دینے کی ہمت کر تا ہے اور نہ کوئی مقدمہ چلا کر سزا دینے پر قادر ہے۔ کسی خطے میں اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ امن و امان قائم کرنے ذمے دار ادارے ایسی صورت حال میں کیا کریں؟
یہی سوال میں نے بلوچستان میں نہایت اہم ذمے داری ادا کرنے والی شخصیت سے کیا ان کا کہنا تھا کہ جو صورت حال میں نے بیان کی ہے ، اسی میں اس سوال کا جواب تلاش کیا جانے تو بہت سے معمے حل ہو جاتے ہیں۔