پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے پی ٹی آئی سوشل میڈیا ورکر کامران خان کی گمشدگی کیس کی سماعت کی۔ کامران خان کی اہلیہ نے عدالت کو بتایا کہ میرے شوہر 3 روز سے لاپتا ہیں، ایف آئی آر درج کی گئی ہے لیکن ابھی تک ان کا کچھ پتا نہیں ہے۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر کی کاپی ہے آپ کے پاس؟ انہیں بتایا گیا کہ جی ایف آئی آر کی کاپی ہے، 30 اپریل کو ایف آئی آر ہوئی ہے۔ اس پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ ایف آئی آر پڑھیں۔ کامران خان کی اہلیہ نے بتایا کہ میرے شوہر کو اسپتال کے سامنے سے اٹھایا گیا ہے، جس کی سی سی ٹی فوٹیج بھی موجود ہے۔
مزید پڑھیں
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے حکم دیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس معاملے کو دیکھیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ میں ابھی متعلقہ ایس ایچ او سے رابطہ کرتا ہوں۔ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ صرف ایس ایچ او سے نہیں، آئی جی سے بھی رابطہ کریں اور اس مسئلے کو حل کریں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل انعام یوسفزئی نے کہا کہ میں آئی جی اور متعلقہ ایس ایچ او سے ابھی رابطہ کرتا ہوں۔
ہمیں پتا ہے کہ کامران خان کہاں ہے لیکن تحمل سے کام لیا ہے، شیر علی ارباب
پی ٹی آئی رہنما شیر علی ارباب نے پشاور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ اغوا کاریوں کا سلسلہ کسی پارٹی یا محکمے کے مفاد میں نہیں، ہمیں پتا ہے کہ کامران خان کہاں ہے لیکن تحمل سے کام لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ورکر کامران 4 دن سے لاپتا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کا شکریہ کہ آج مغوی کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت کی اور پولیس سے جواب طلب کیا ہے۔ آوازیں دبانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
شیر علی ارباب نے کہا کہ جو بھی ایسے کارروائیوں میں ملوث ہے ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ عوام یہ مزید برداشت نہیں کریں گے۔ رواں سال پشاور میں 15 دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔ ملک میں مسائل ہیں لیکن ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں۔ ابھی تک ہم نے ایک لحاظ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر آج جس طرح اداروں کے نام لیے جا رہے ہیں ایسے پہلے کبھی نہیں ہوا، عوام کے دلوں میں پہلے اداروں کے لیے عزت و احترام تھا ایسی کارروائیوں سے لوگ متنفر ہورہے ہیں۔ اس صوبے کے عوام نے ہمیں مینیڈیٹ دیا ہے۔ ہمیں عوام کے مسائل کا ادراک ہے، اگر ہم مزاحمت میں لگے رہے تو پھر عوام کے مسائل حل کرنا مشکل ہوجائے گا۔