بھارت کے انتخابات میں بی جے پی نے ’400 پار‘ کے نعرے کو حقیقت بنانے کے لیے مسلم دشمن تقاریر پر زور دیا ہوا ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ 543 کے ایوان میں 400 سے زائد نشستوں کے ساتھ حکومت بنائے گی۔
گزشتہ انتخابات یعنی سنہ 2019 میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کی مجموعی نشستیں 352 تھیں۔ آج انڈین الیکشن کے 7 مراحل میں سے 2 مرحلے مکمل ہو چکے ہیں اور اس دوران انتخابی مہم کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مسلسل نفرت انگیز تقاریر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نریندر مودی نے کانگریس کے منشور پر تنقید کے لیے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کیں۔ انہوں نے کانگریس کے منشور پر تنقید کرتے ہوئے مسلمانوں کا حوالہ کچھ اس طرح سے دیا ’کانگریس ہندو خواتین کے گلے کا منگل سوتر بھی گھس بیٹھیوں، زیادہ بچے پیدا کر نے والوں کو دینے کا وعدہ کررہی ہے‘۔
مزید پڑھیں
کچھ تقاریر کا اقتباس یوں ہے۔ ’کانگریس نے اپنے منشور میں لکھا ہے کہ وہ شادی شدہ ہندو خواتین کے منگل سوتر سمیت ذاتی ملکیت کا سروے کرے گی، اس کو ضبط کرے گی اور (مسلمانوں میں) تقسیم کر دے گی، میری ماؤں اور بہنوں کی زندگی میں سونا صرف دکھاوے کے لیےنہیں ہوتا، اس کا تعلق ان کی عزت نفس سے ہوتا ہے۔ منگل سوتر ان کی زندگی کے خوابوں سے جڑا ہوتا ہے تم اپنے منشور میں اسے چھیننے کی بات کر رہے ہو‘۔ ایک جگہ یہ بھی کہا کہ ’کانگریس کی پچھلی حکومت نے کہا تھا کہ ملک کی جائیداد پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے‘۔
اس کے بعد ایک اور تقریر میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جس پر ہزاروں افراد نے انڈین الیکشن کمیشن سے ’ہیٹ اسپیچ‘ پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔
مودی نے ایک جلسے میں کہا ہے کہ ’کانگریس آپ (ہندوؤں) کی دولت جمع کرے گی اور اسے گھس بیٹھیوں (دراندازوں) اور جن کے زیادہ بچے ہیں (مسلمانوں) میں تقسیم کر دے گی‘۔
کانگریس آپ کی محنت کی کمائی اور آپ کی جائیداد پر پنجہ مارنا چاہتی ہے۔ عورتوں کی دولت لوٹنا چاہتی ہے۔ ایک اور تقریر میں مودی نے دعویٰ کیا کہ کانگریس نے غیر قانونی طریقوں سے کرناٹک میں مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کا اہتمام کیا ہے۔ اس نے تمام مسلمانوں کو او بی سی کوٹا میں ڈال دیا اور او بی سی ریزرویشن کا بڑا حصہ چھین کر مذہب کی بنیاد پر انہیں دے دیا۔ کانگریس نے کرناٹک میں مذہب کی بنیاد پر کوٹا نافذ کیا تھا۔
مودی نے اپنی ایک تقریر میں کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ ’کانگریس کا منشور ایسا ہے جیسا سنہ 1947 میں مسلم لیگ کا منشور تھا‘۔ اس تقریر کے خلاف ہزاروں افراد نے مودی کے خلاف الیکشن کمیشن میں شکایت درج کروائی لیکن کوئی کارروائی دیکھنے کو نہ ملی۔
مودی کی حکومت کے 10 سالوں میں جہاں مسلمان دشمنی میں حدود پار کی گئیں، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی، رام مندر کی تعمیر ہوئی، نماز کی ادائیگی کے دوران مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی آج بھی الیکشن مسلمانوں کی نفرت میں لڑ رہی ہے اور مسلمان مخالف جذبات کے ذریعے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
حالیہ تقاریر میں جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں ہوئیں وہیں انڈیا کا مین اسٹریم میڈیا مکمل خاموش دکھائی دیا۔ مودی کی ان تقاریر کو مین اسٹریم میڈیا پر براہ راست دکھایا جاتا ہے لیکن ان پر تنقید دیکھنے کو نہیں ملتی۔
بھارت کا مین اسٹریم میڈیا بی جے پی کے سامنے مکمل طور پر سرینڈر کرتا نظر آ رہا ہے۔ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر چند آوازیں ان اقدامات کے خلاف نظر آتی ہیں لیکن وہ آوازیں بی جے پی کے میڈیا سیلز کے سامنے نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق ہیں کیوں کہ سوشل میڈیا پر بھی بی جے پی کے آئی ٹی سیل جعلی خبروں کو پھیلانے کا منظم طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں کہ جس کی وجہ سے ایک عام بھارتی کے سچ تک پہنچنے کے امکانات محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے مسلم مخالف پروپیگنڈا پھیلانے اور ہر اختلافی آواز کو غدار اور پاکستانی کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔
ماضی قریب میں دیکھا جائے تو گزشتہ 10 برسوں کے دوران بھارت میں پاکستان اور مسلمان مخالف اور تاریخ کو مسخ کرنے والی پروپیگنڈا فلموں کا رجحان بڑھا ہے اور ایسی فلموں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ ان میں کشمیر فائلز، آرٹیکل 370، اوڑی، خفیہ، دی کیرلا اسٹوری اور ان جیسی کئی فلمیں بنائی گئی ہیں جو بی جے پی کے پروپیگنڈے کو تقویت بخشتی ہیں۔
مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ انٹرٹینمنٹ میڈیا میں بھی بی جے پی نے بالی ووڈ میں موجود تنقیدی آوازوں کو دبایا اور پیغام دیا ہے کہ بی جے پی کے خلاف کوئی آواز برداشت نہیں کی جائے گی۔
حالیہ تقاریر میں مسلمانوں کے خلاف بیانات پر بھارت کے اکثریتی میڈیا چینلز نے اس پر بات تک نہیں کی اور جن چینلز نے ان تقاریر کا ذکر کیا انہوں نے بھی نریندر مودی کو واضح طور پر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔
ظاہری طور پر اس وقت بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی میڈیا انڈسٹری ہے، 20 ہزار اخبارات ہیں اور 300 سے زائد نیوز چینلز ہیں مگر بیشتر اخبارات اور میڈیا ہاؤسز نریندر مودی کے گن گارہے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت کا مین اسٹریم میڈیا حکمراں جماعت بی جے پی کے سامنے مکمل طور پر سرینڈر کرچکا ہے۔
آج انڈیا کے زیادہ تر اخبارات اور میڈیا چینلز پر تشہیر کی جارہی ہے کہ اگلی باری پھر مودی کی ہو گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر پھر سے بی جے پی کی حکومت آتی ہے تو یہ نفرت انگیزی مزید کیا گل کھلائے گی۔