حوادث زمانہ کا عینی شاہد صدیوں پرانا شیرگڑھ قلعہ

منگل 23 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ضلع مانسہرہ کی تحصیل اوگی سے تقریباً 20 کلومیٹر مشرق کی جانب سفر کرتے ہوئے اوگی دربند روڈ پر واقع بلند قامت پہاڑ کے دامن میں کھڑی پرشکوہ اور کہنہ عمارت دور سے دیکھنے والوں کو ایک بار اپنی جانب متوجہ ضرور کرتی ہے۔ جس کے قریب جانے پر تاریخ کے کئی دریچے وا ہوتے ہیں۔

تعمیر اور موجودہ حالت

اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب مہاراجا رنجیت سنگھ کی زیر قیادت پنجاب میں قائم ہونے والی پہلی سکھ حکومت کا غلبہ شمال میں ہزارہ سے ہوتا ہوا کشمیر تک جا پہنچا تھا، لیکن مشرقی سمت میں آباد قبائل کسی صورت قابو میں نہیں آرہے تھے، بالخصوص سترہویں صدی کے اواخر میں تناول کے سنگلاخ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل تنولی آزاد ریاست جسے پہلے ملک تنول اور بعدازاں ریاست امب دربند کہا جاتا تھا کاحکمران خاندان اور تنولی قبیلہ آخری دم تک مہاراجا رنجیت سنگھ کے معروف کمانڈر ہری سنگھ نلوہ کے لیے درد سر بنا رہا۔

جہاں ہریپور، رش اور مانسہرہ کے وسیع میدانی علاقوں میں بسنے والی اقوام کو وہ اپنا مطیع بنا چکا تھا لیکن مشرقی سمت میں میرپائندہ خان تنولی کی زیر قیادت لشکر ہمہ وقت سکھ افواج سے نبرد آزما رہا۔

سنہ 1813 میں سکھ سرکار نے سردار پائندہ خان اور اس کے حملہ آوروں کے تدارک کے لیے مشرقی سمت کے حملہ آوروں کو روکنے کے لیے مانسہرہ سے لے کر موجودہ ہری پور ضلع تک تقریباً 17 چھوٹے اور بڑے قلعے یا چوکیاں قائم کیں جہاں ان کی باقاعدہ فوج تعینات ہوتی تھی۔ لیکن ان میں سے صرف چند ایک کے کھنڈرات باقی ہیں، البتہ شیرگڑھ قلعہ تاحال پورے قدوقامت کے ساتھ وقت کے تھپیڑوں کا مقابلہ کررہا ہے۔

مقامی صحافی سید عتیق کے مطابق شیر گڑھ قلعہ تقریباً 13-1812 میں معروف سکھ کمانڈر ہری سنگھ نلوہ نے تعمیر کیا جس کا مقصد اس علاقے میں سکھ سرکار سے بغاوت کرنے والے مقامی قبائلی سردار میرپائندہ خان تنولی اور اس کے لشکر کی پکھل و مانسہرہ کے علاقوں کی جانب پیش قدمی کو روکنا اور انہیں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کی جانب محدود رکھنا تھا۔

یہ درحقیت ان 17 قلعوں کے سلسلے کا حصہ ہے جو ہزارہ بھر کے طول وعرض میں تعمیر ہوئے تاکہ علاقے میں کسی بھی ممکنہ بغاوت کا تدارک ہوسکے اور ان کی گرفت مضبوط رہے۔

لیکن اگلے چند سالوں کے دوران ہی بالائی تناول (اپر تناول) کے متعدد قلعے بشمول شیر گڑھ، ڈوگہ بھاروکوٹ وغیرہ کے پائندہ خان تنولی اور اس کے لشکر کے ہاتھوں تاراج ہوچکے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ 1817 میں میر پائندہ خان کے والد نواب خان تنولی کو مقامی عمائدین کی ضمانت پر صلح کے بہانے بلا ہری سنگھ نلوہ نے بلوا کر انہیں دھوکے سے قتل کردیا اور ان کی لاش کو دریائے سندھ میں بہادیا۔ جبکہ نوجوان پائندہ خان اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور دشوار گزار سنگلاخ پہاڑوں کو انہوں نے اپنا مسکن بناتے ہوئے اپنی پوری زندگی سکھ حکومت کے خلاف جدوجہد میں گزار دی۔

اگرچہ سکھ حکومت کی جانب سے بعدازاں انہیں رام کرنے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کی متعدد کوششیں ہوئیں لیکن ان کے دل میں موجود غم و غصے کو ختم نہ کیا جاسکا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پوری زندگی سکھ حکومت کے مفادات پر ضرب لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور اس واقعہ کے چند سال بعد ہی انہوں نے اپنے لشکر کے ہمراہ حملہ کرتے ہوئے شیر گڑھ قلعہ پر قبضہ جمالیا اور یہاں موجود سکھ لشکر کو تہہ و تیغ کردیا۔ اس واقعہ میں چند سکھ سپاہی بمشکل اپنی جانیں بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوپائے۔

اس وقت دریائے سندھ کے کنارے امب شہر (جو تربیلاجھیل میں ڈوب چکا ہے) خطے کی واحد آزاد ریاست کا دارالحکومت اور پائندہ خان کی فوجی و سیاسی طاقت کا مرکز تھا۔ جبکہ شیرگڑھ کا قلعہ اس شہر سے کئی کلومیٹر جنوب کی جانب واقع تھا۔

اس واقعہ کے ڈیڑھ دو عشروں بعد سکھ سلطنت زوال اور کمزوری کاشکار ہونا شروع ہوئی اور انگریز اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے تو انہوں نے ریاست امب دربند کو آزادانہ حیثیت میں قائم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد اس قلعہ کی سیاسی و فوجی اہمیت اور بھی بڑھ گئی اور یہ مقام ریاست امب دربند کے نوابین کا مستقل ٹھکانہ بن گیا۔

ایک مقامی شخص جہانزیب خان کے بقول 1890 کے لگ بھگ اس وقت کے نواب اکرم خان نے پرانے قلعے میں نئی ترامیم و اضافے کے ساتھ نئی تعمیرات کروائیں، کیونکہ امب شہر میں شدید گرمی کے باعث اس مقام کو ریاست کا گرمائی دارالحکومت قرار دیاگیا تھا اور ہر موسم گرما میں نواب خاندان یہاں قیام کرتا تھا۔ جبکہ ریاستی نظام کو چلانے کے لیے سرکاری اہلکار اور عہدیدار بھی یہاں موجود ہوتے۔

تاہم بعدازاں جب تربیلا ڈیم تعمیر ہوا تو ریاست کا اصل مرکز یعنی امب شہر جھیل میں ڈوب گیا جس کے بعد یہ قلعہ مستقل طور پر نواب صاحب کی رہائشگاہ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ (نواب صاحب کا خطاب سرکاری طور پر 1970 میں ختم کردیا گیا تھا تاہم مقامی لوگ اب بھی موجودہ علامتی سربراہ کو نواب صاحب ہی کہہ کرمخاطب کرتے ہیں)۔

کوٹھی، نواب صاحب یا شیر گڑھ قلعہ کی موجودہ تعمیرات 2 حصوں پر مشتمل ہیں جس میں بیرونی حصہ میں مہمان خانہ اور ملاقاتیوں کے لیے کمرے اور راہداریاں ہیں جبکہ اندرونی حصہ نواب خاندان کی رہائش گاہ ہے۔ اگرچہ نئی نسل زیادہ تردیگر شہروں میں منتقل ہوچکی ہے تاہم خاندان کے بزرگ ابھی اپنے آباؤ اجداد کی وراثت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔

جب فاتح و مفتوح کی نسل دوست بن کر ملی

4 سال قبل امریکا و یورپ میں مقیم سکھوں کے ایک وفد نے شیر گڑھ کا دورہ کیا تاہم اس دورے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہاں ماضی کے فاتح و مفتوح کی اولاد تقریباً 100 سال بعد ایک بار پھر آمنے سامنے کھڑی تھی، لیکن اس مرتبہ ان کے ہاتھوں میں تلوار و بندوق نہیں بلکہ پھول اور گرمجوشی تھی۔

اس واقعہ کو رپورٹ کرنےوالے صحافی قدیر تنولی کے مطابق یہ ایک حیرت انگیز واقعہ تھا جب میر پائندہ خان کے پڑپوتے نوابزادہ جہانگیر خان تنولی نے ہری سنگھ نلوہ کے پڑپوتے ستندر سنگھ ویر کا اسی مقام پر خندہ پیشانی سے خیرمقدم کیا جہاں تقریباً 100 سال قبل ان کے اجداد ایک دوسرے کےخلاف ہتھیار اٹھائے معرکہ آرا تھے۔

شیر گڑھ کا تاریخی قلعہ جو کسی زمانہ میں فاتح و مفتوحین کا تماشا دیکھتا تھا، آج وہ صرف گزرے زمانوں کے حوادث کا ایک راوی ہے جو سننے والوں کو بہت سی دلچسپ کہانیاں اپنی زبان حال سے بیان کرتا دکھائی دیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp