سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کو بڑا ریلیف دیتے ہوئے مخصوص نشستوں کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیا، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوا دیا۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو ریکارڈ سمیت طلب کیا، تمام کارروائی کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا سنی اتحاد کونسل کی نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل کر رہے ہیں اور کیس کو سماعت کے لیے منظور کر رہے ہیں۔
انہوں نے الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو معطل کرتے ہوئے، معاملہ ججز کمیٹٰی کو بھجوا دیا اور کہا کہ فیصلوں کی معطلی اضافی سیٹیں دینے کی حد تک ہوگی۔ تاہم اب ججز کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ لاجر بینچ تشکیل دیا جائے گا یا موجودہ بینچ ہی سماعت کرے گا۔
مزید پڑھیں
یاد رہے سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت کا وقت تبدیل کرتے ہوئے 8مئی کے بجائے آج مقرر کیا تھا، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بنائے گئے 3رکنی بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آئے اور اپنے دلائل کا آغاز کیا، اس دوران خواتین ارکان اسمبلی کے وکیل نے کہا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا مقدمہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس 5 رکنی بینچ سن سکتا ہے۔
لاجر بینچ تشکیل دیا جائے
وفاقی حکومت کی جانب سے بھی 3 رکنی بینچ پر اعتراض کر دیا گیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اپیلیں لارجر بینچ ہی سن سکتا ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ ابھی تو ابتدائی سماعت ہے، اگر اپیلیں قابل سماعت قرار پائیں تو کوئی بھی بینچ سن لے گا، اس اسٹیج پر تو 2 رکنی بینچ بھی سماعت کر سکتا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی کے آزاد جیتے ہوئے اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 7 امیدوار تاحال آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا حصہ ہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟ وکیل فیصل صدیقی بولے کہ جی پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔
کوئی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ کسی صورت مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے صرف الیکشن میں حصہ نہیں لیا، جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ آزاد اراکین کو کتنے دنوں میں کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ آزاد اراکین قومی اسمبلی کو 3 روز میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ استفسار کیا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لے اور آزاد جیتے ہوئے اراکین اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوتی ہے، سیاسی جماعت کیا اپنی جیتی ہوئی سیٹوں کے مطابق مخصوص نشستیں لے گی یا زیادہ بھی لے سکتی ہے؟
وکیل فیصلی صدیقی نے جواب دیا کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ کسی صورت مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔
الیکشن کمیشن حکام کو ریکارڈ سمیت حاضر ہونے کی ہدایت
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن حکام کو ریکارڈ سمیت حاضر ہونے کی ہدایت کی، جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ جمہوریت کا ایک اصول متناسب نمائندگی ہے، یعنی جتنی نشستیں کسی جماعت کی ہوں گی، اسی تناسب سے اسے مخصوص نشستیں ملیں گی، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں جمیعت علمائے اسلام کی 7 جنرل نشستیں ہیں جبکہ ان کو 10 مخصوص نشستیں دی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو 4 جنرل نشستوں پر 6 جبکہ مسلم لیگ ن کو 6 جنرل نشستوں کے مقابلے میں 8 مخصوص نشستیں دی گئی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے وفاقی حکومت کے نمائندے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل کو صرف اس وجہ سے نشستیں نہیں ملیں کہ اس نے ان کے لیے اپلائی نہیں کیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل بولے کہ ہمیں نوٹس جاری نہیں ہوا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عوامی مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے، اصل مسئلہ عوامی مینڈیٹ ہے، قانون میں کہاں لکھا ہے کہ بچی ہوئی نشتسیں دوبارہ انہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی جماعت کو اتنی ہی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں جتنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے ان کی بنتی ہیں، قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ انتخاباتی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جی یہی سوال لے کر الیکشن سے قبل میں عدالت گیا تھا۔
میں سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت ہی نہیں مانتا، وکیل الیکشن کمیشن
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیتے ہوئےکہا کہ آرٹیکل 51 کے تحت صرف وہ جماعت مخصوص نشستوں کی لیے اپلائی کر سکتی ہے جس نے ان کے لیے لسٹیں دی ہوں، میں سنی اتحاد کونسل کو سیاسی جماعت ہی نہیں مانتا۔ جسٹس منصورعلی شاہ بولے کہ الیکشن کمیشن نے تو اس جماعت کو تسلیم کر رکھا ہے۔ عوام نے جو ووٹ دیا،اس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے، یہ کامن سینس ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مخصوص نشستیں ایک ہی بار تقسیم کی گئیں، دوبارہ تقسیم کا معاملہ ہی نہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ پھر الیکشن کمیشن کا حکمنامہ پڑھ کر دیکھ لیں۔ آپ اس کو کوئی بھی نام دیں تناسب سے زیادہ نشستیں ان جماعتوں کو دی گئی ہیں نا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا زیادہ نشستیں بانٹنا تناسب کے اصول کے خلاف نہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن بولے کہ میں بتاتا ہوں الیکشن کمیشن نے اصل میں کیا کیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کیا کیا اس سے نہیں آئین کیا کہتا ہے اس سے غرض ہے، جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ آپ جس بیک گراؤنڈ میں جا رہے ہیں اس کے ساتھ کچھ اور حقائق بھی جڑے ہیں، ایک جماعت انتخابی نشان کھونے کے بعد بھی بطور سیاسی جماعت الیکشن لڑ سکتی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عوام نے جو ووٹ دیا، اس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے، یہ کامن سینس ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آئین پاکستان کا آغاز بھی ایسے ہی ہوتا ہے کہ عوامی امنگوں کے مطابق امور انجام دیے جائیں گے، کیا دوسرے مرحلے میں مخصوص نشستیں دوبارہ بانٹی جا سکتی ہیں؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیاسی جماعت کا مطلب ہوتا ہے وہ جماعت جو انتخابی نشان پر الیکشن لڑے، پارٹی کو رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔
گزشتہ سماعتوں کا احوال
اس سے قبل مقدمے کی سماعت 8 مئی کو مقرر کی گئی تھی۔ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔
4 ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتیں، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔