‎آزاد کشمیر: کیا 11 مئی کے احتجاج کو روکنے کے لیے ایف سی اور پی سی سے خدمات لی جائیں گی؟

پیر 6 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ممکنہ احتجاج کو روکنے کی لیے شہر مظفرآباد میں پولیس مشقیں کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ماحول میں تناؤ کی سی کیفیت ہے اس شدید تناؤ کے درمیان وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا کہ پاکستان سے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) آرہی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ 11 مئی کے ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے نہیں بلکہ اہم تنصیبات اور چین کے انجینئرز کی حفاظت کے لیے آرہے ہیں۔

آزاد کشمیر وزیراعظم نے ان خبروں کی بھی تردید کی ہے کہ 11 مئی کے ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے پنجاب کانسٹیبلری (پی سی) آزاد کشمیر آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 11 مئی کو مقامی پولیس لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھے گی جس طرح وہ ماضی میں عوامی ایکشن کیمٹی کے احتجاج کے دوران کرتی رہی ہے۔

واضع رہے کہ جموں کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی نے اپنے مطالبات کے حق میں 11 مئی کو مکمل پہیہ جام، شٹر ڈاؤن اور مظفرآباد میں اسمبلی کے باہر احتجاج کی کال دی رکھی ہے۔

گزشتہ روز مظفرآباد میں اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے کہا کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو چین کے شہریوں اور پن بجلی گھروں کی حفاظت کے لیے منگوایا گیا ہے۔ چوہدری انوارالحق نے کہا کہ کون سی ایسی بات ہے جس سے آپ کو یہ لگتا ہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) احتجاج کو کچلنے کے لیے آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے واضع طور پر کہا گیا ہے اور میری طرف سے بھی برملا اظہار کیا گیا ہے کہ بشام واقعہ کے بعد غیر ملکی طاقتیں جن میں انڈیا اور را سرفہرست ہیں نہیں چاہتیں کہ آزاد کشمیر کے واٹر گولڈ اور ہائیڈل پوٹینشل کو محفوظ حالت میں رکھ کر اس کا مفاد آزاد کشمیر کے شہریوں اور پاکستان کو پہنچایا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ روشن پاکستان بھارت کی موت ہے۔ جب دشمن کے عزائم آپ کے سامنے ہوں اور آپ حکمران وقت ہوں تو اپنی اس طاقت کو جس کے ساتھ آپ کی دوستی ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند ہے، ان انجینئرز کی حفاظت کے لیے پیشہ ور سپاہ ایف سی کو نہیں بلائیں گے تو کیا کریں گے، اس میں معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی کیوں ضرورت ہے۔ جاگراں، وادی نیلم، نیلم جہلم اور منگلا میں بھی ان کی ڈیوٹی ہے، ایف سی اہم تنصیبات کے حٖفاظت کے لیے آئے گی۔

واضح رہے کہ 26 مارچ کو بشام میں چینی انجینئرز کی بس پر خود کش حملے میں 5 چینی باشندوں سمیت 6 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم جس وقت صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے عین اس وقت ایف سی کے جوان باغ شہر میں پہنچ چکے تھے۔

اس سے قبل سوشل میڈیا پر آزاد کشمیر کے چیف سیکریٹری کا ایک مراسلہ منظر عام پر آیا تھا جس میں آزاد کشمیر میں اہم تنصیبات اور چین کے انجینئرز کی حفاظت کے لیے حکومت پاکستان سے ایف سی کی خدمات طلب کی گئیں اور اسی مراسلے میں 11 مئی کے احتجاج کو روکنے کے لیے پنجاب کانسٹیبلری کی بھی خدمات طلب کی گئیں ہیں۔ مراسلے میں احتجاجیوں کو ناراض عناصر اور سب نیشنلسٹ گردانا گیا ہے۔ اس مراسلے کے منظرعام پر آنے کے بعد آزاد کشمیر کے اندر اور آزاد کشمیر کے باہر بہت سارے کشمیریوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے مظفرآباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس حد تک خط کے متن کی تصدیق کی کہ ایف سی کو منگوایا جارہا ہے لیکن انہوں نے پنچاب کانسٹیبلری طلب کرنے کی خبروں کی تردید کی۔ اس کے باوجود آزاد کشمیر میں بہت سارے لوگ وزیر اعظم کے بیان پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے 2 مطالبات تھے جن میں سے ایک بجلی کے نرخ جون 2022 کی سطح پر رکھے جانے کے بارے میں تھا جس پر عمل درآمد ہوچکا ہے اور آزاد کشمیر حکومت اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے۔

چوہدری انوارالحق نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ایک رہنما شوکت نواز میر کی گفتگو ریکارڈ پر ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 99 فیصد ہمارے معاملات حل ہوچکے ہیں اور 0.1 فیصد رہ گئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ پیداواری لاگت پر بجلی کی فراہمی کے بارے میں تھی اور محکمہ سروسز نے اس کو مشتہر بھی کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت طے پانے والے معاملات پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔

ادھر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر نے کہا ہے کہ انہوں نے حکومت کو 10 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ دیا تھا جس کے بعد حکومت نے 16 اراکین اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے ان کے ساتھ مذاکرات کئے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے نتیجے میں طے شدہ معاملات حل کرنے کے بارے میں محکمہ سروسز اور جنرل ایڈمنسٹریشن نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔

شوکت نواز میر نے کہا کہ اس میں سہر فہرست آٹے پر سبسڈی کے معاملے کو ایک ماہ میں یعنی 3 مارچ تک حل کیا جانا تھا لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ ہر 15 روز بعد ان کے ساتھ ایک جائزہ میٹنگ ہوگی۔ حکومت نے آٹے سمیت کسی بھی طے شدہ معاملات کو حل نہیں کیا اور نہ ہی کوئی جائزہ میٹنگ کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک ماہ گزرنے کے بعد 5 مارچ کو احتجاج کی کال دی لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس کال کے باوجود وہ مذکرات کو اہمیت دے رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ایکشن کمیٹی نے 27 مارچ کو حکومت کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے حکومت کو یاد دلایا کہ ان کے ساتھ طے شدہ معاملات حل نہیں ہوئے اور وقت دیا کہ 30 اپریل تک حکومت کے ساتھ مذاکرات کرسکتے ہیں اور اس دوران حکومت ان کے ساتھ طے شدہ معاملات حل کرے لیکن حکومت نے لیت و لعل سے کام لیا اور کوئی دلچسپی نہیں لی، جس کے بعد ہم احتجاج کی کال پر قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت ان کے ساتھ طے شدہ معاملات حل نہیں کرتی وہ احتجاج کی کال سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

شوکت نواز میر نے وزیر اعظم کے اس بیان پر سوال اٹھایا کہ صرف ایف سی کواہم تنصیبات اور چین کے انجینئرز کی حٖفاظت کے لیے منگوایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس خط میں ایف سی کا ذکر ہے اسی خط میں یہ ذکر بھی ہے کہ 11 مئی کے احتجاج کو روکنے کے لیے پی سی کی خدمات طلب کی گئیں اور یہ خدمات ایک ماہ کے لیے طلب کی گئی ہیں۔

دوسری جانب وکلاء اور سول سوسائٹی کی جانب سے ایف سی اور پی سی کی تعیناتی اور عوامی حقوق کی تحریک کو طاقت سے کچلنے کے مبینہ حکومتی منصوبے پر کڑی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر راجا سجاد کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر جیسے پرامن خطے میں چائنیز کی سیکیورٹی کے نام پر وفاق سے ایف سی اور پی سی کی طلبی کے معاملے کو کابینہ میں رکھا گیا اور نہ ہی اس کی آئینی و قانونی ضرورت اور جوازیت پیش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 11 مئی کے احتجاج کے دوران کوئی بھی شہری زخمی ہوا یا مارا گیا تو اس کی ذمہ داری وزیراعظم اور ان کے حمایتی سیاسی جماعتوں اور کابینہ کے اراکین پر عائد ہوگی جو اس لاقانونیت میں وزیراعظم کے حمایتی ہیں یا خاموش ہیں۔

راجہ سجاد نے کہا کہ کچھ حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ایکشن کمیٹی کے احتجاج کے پیچھے انڈین ایجنٹ ہیں یا ان کو ملک دشمن قوتوں کی آشیرباد حاصل ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو ایسے عناصر کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ قانونی کارروائی کی جائے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم نے میڈیا سے گفتگو کے دوران یہ تاثر دیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ آٹے اور بجلی کو لے کر احتجاج کرنے والے کون ہیں۔

اسی طرح کراچی بار ایسوسی ایشن نے بھی آزاد کشمیر میں ایف سی اور پی سی کی تعیناتی کو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پر امن احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

سوشل میڈیا صارفین بھی آزاد کشمیر حکومت کے اس اقدام پر غم اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق عوام کے مطالبات پورے کرنے کے بجائے پرامن احتجاج کو کچلنے کے لیے فورسز کی تعیناتی نہایت غیر دانش مندانہ فیصلہ ہے۔ یہ عمل بد امنی کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ عوام بہت غصے میں ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp