سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مارو، جلاؤ گھیراؤ کرو اور چلے جاؤ، یہ کیا طریقہ کار ہے۔ فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل کیا جاتا تو 9 مئی کے واقعات نہ ہوتے۔ چیف جسٹس نے کہا لگتا ہے کہ دھرنا کمیشن کا واحد کام جنرل فیض حمید کو الزامات سے بری کرنا تھا۔ کمیشن لکھ رہا ہے کہ آرمی ایک مقدس ادارہ ہے تو کیا عدالت اور پارلیمنٹ کم مقدس ہیں؟ کیس کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے رپورٹ جمع کرائی ہے آپ نے وہ رپورٹ دیکھی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی الیکشن کمیشن کی رپورٹ نہیں دیکھی۔
قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ تب تک رپورٹ کا جائزہ لے لیں، اس کیس کو آخر میں سنتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد چیف جسٹس نے آگاہ کیا کہ آج کے مقدمات ختم ہوگئے ہیں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت ساڑھے 11 بجے کریں گے۔
مزید پڑھیں
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ ہمیں بینچ نمبر 2 میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت میں پیش ہونا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ وہاں سے فارغ ہو کر ہمیں بتا دیں پھر فیض آباد کیس پر سماعت کریں گے۔ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دھرنا انکوائری کمیشن کے سربراہ بھی عدالت میں موجود ہیں، عدالت کا رپورٹ سے متعلق کوئی سوال ہو تو کمیشن کے سربراہ سے پوچھا جاسکتا ہے۔
پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنے نقصانات ہوئے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ کے غیر مستند ہونے پر برہمی کا اظہار کیا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے کمیشن کو بتایا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر ان کی ذمہ داری نہیں تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کس طرح کی رپورٹ کمیشن نے بنائی ہے کمیشن کے دیگر ممبران کہاں ہے؟ ایک پیراگراف میں کہہ رہے ہیں آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں، آگے پیراگراف میں لکھ رہے ہیں ٹی ایل پی کے مالی معاونت کے ثبوت نہیں ملے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنے نقصانات ہوئے؟ مارو، جلاؤ گھیراؤ کرو اور چلے جاؤ یہ کیا طریقہ کار ہے؟
انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی ہوئی، چیف جسٹس کا اظہار برہمی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کمیشن کی رپورٹ پر برہم ہوگئے، انہوں نے ریمارکس دیے کہ میں سمجھ نہیں پا رہا کس لیول کے ذہن نے یہ رپورٹ تیار کی ہے؟ کمیشن کو معلوم ہی نہیں ان کی ذمہ داری کیا تھی؟ کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی، پاکستان کا کتنا نقصان ہوا لیکن اس کے نقصان کی کسی کو پرواہ ہی نہیں، آگ لگاؤ اور مارو یہ حق بن گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو سبق نہیں سیکھتے انہیں سبق سکھایا جانا چاہیے، ایک تو چوری پھر سینہ زوری، ریاست کو اپنی رٹ منوانا پڑے گی، لوگوں کی املاک کو آگ لگائی گئی، اس بیچارے کا تو کوئی قصور نہیں تھا، آگ لگانے والے کو ہیرو بنا کر تو نہ پیش کریں۔
کمیشن کہہ رہا ہے جو کر رہے تھے وہ ذمہ دار نہیں، پنجاب حکومت ذمہ دار ہے: چیف جسٹس
ان کا کہنا تھا کہ مجھے تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے، کہتے ہیں بس آگے بڑھو، ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے جا سکتے ہیں؟ جب پاکستان بنا تھا، بتائیں کہیں کسی نے آگ لگائی تھی؟ یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ کراچی میں چھوٹے سے معاملے پر کسی کی موٹرسائیکل روک کر آگ لگا دی جاتی ہے، لامعنی باتوں پر آگ لگا دی جاتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمیشن کہہ رہا ہے جو کر رہے تھے وہ ذمہ دار نہیں، پنجاب حکومت ذمہ دار ہے۔
کمیشن کیسے کہہ سکتا کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کمیشن کہ رہا ہے پنجاب حکومت رانا ثنا اللہ چلا رہے تھے وہی ذمہ دار ہیں، کمیشن نے یہ نہیں بتایا کہ حلف کی خلاف ورزی کس نے کی؟ کمیشن کیسے کہہ سکتا کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا؟ پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے، مجھے معلوم نہیں کمیشن کو کس بات کا خوف تھا، انکوائری کمیشن کو لگتا ہے پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ کمیشن کا سارا فوکس صرف اس بات پر تھا کہ پنجاب سے اسلام آباد کیوں آنے دیا؟ جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیے کہ کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا ہے، چیف جسٹس نے کہا کمیشن نے مداخلت نہ کرنے پر ساری رپورٹ پنجاب حکومت کے خلاف لکھ دی ہے۔
مان لیتے ہیں پنجاب سرکار نے پتھر بھی مارے اور گاڑیاں بھی جلائی تھیں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مان لیتے ہیں پتھر بھی پنجاب سرکار نے مارے تھے، مان لیتے ہیں گاڑیاں بھی پنجاب سرکار نے جلائی تھیں، اس وقت پنجاب میں کس کی حکومت تھی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ میں آئی جی پنجاب کی بات کی گئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ آئی جی کے ساتھ کوئی پرانی مخاصمت تھی تاکہ اسکور برابر ہو۔
قوم کا وقت ضائع کیا گیا، رپورٹ میں ٹی ایل پی کا ذکر ہی نہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کس قسم کی رپورٹ بنائی گئی ہے؟ اس رپورٹ میں قوم کا وقت ضائع کیا گیا، رپورٹ میں ٹی ایل پی والوں کا کوئی ذکر ہی نہیں، کیا ٹی ایل پی والوں کو بلایا گیا تھا؟ عدالت نے کہا کہ کمیشن نے ٹی ایل پی والوں کو نہیں بلایا تھا، ٹی ایل پی والوں کو بلایا جاتا تو شاید سچ سامنے آ جاتا۔
جسٹس عرفان سعادت کا کہنا تھا کہ جنہوں نے ناشتہ اور کھانا بھیجا ان کے بیانات ریکارڈ پر ہے، قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ بیانات ریکارڈ نہیں ہوئے تو ٹی ایل پی والوں کے نہیں ہوئے، کھانا کھلانا یا پانی پلانا کوئی جرم نہیں کسی کو بھی کھانا کھلایا جاسکتا ہے۔
خوبصورت اتفاق تھا کہ نظرثانی درخواستیں ایک ساتھ دائر ہوئیں، قاضی فائز عیسیٰ
قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کمیشن کہہ رہا ہے قانون موجود ہیں ان پر عمل کرلیں، بہت شکریہ، یہ کہنے کے لیے ہمیں کمیشن بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کمیشن نے لکھا نظرثانی درخواستیں اتفاق سے سب نے دائر کیں اور اپنی وجوہات پر واپس لیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ماشااللہ، یہ کمیشن والے لوگ پتا نہیں پولیس میں کیسے رہے، یہ ایسے ہی ہے کہ چور سے پوچھ لیا کہ تو نے چوری تو نہیں کی، درخواستیں دائر کرنے والے سب لوگوں سے پوچھ تو لیتے، کیا خوبصورت اتفاق تھا اتنی نظرثانی درخواستیں ایک ساتھ دائر ہوئیں۔
فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پانچویں کلاس کے بچوں کو دینے والی چیز ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے نظرثانی کی منظوری دی ہوگی، وکیل کیا ہوگا سارا ریکارڈ کہاں ہے؟ فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ پانچویں کلاس کے بچوں کو دینے والی چیز ہے۔ کمیشن کے لوگ تو دفتر سے نکلے ہی نہیں، انہوں نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ یہ لوگ کہاں پر بیٹھے ہوئے تھے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن کے لوگ وزارت داخلہ میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سے نہیں نکلے۔
جنرل فیض حمید بات کی تو کمیشن نے فتویٰ سمجھ لیا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ لوگ 12 مئی اور 2014 والے دھرنے کو گول کرگئے ہیں، ہم نے کہا تھا ان معاملات کا کچھ کریں، یہ دھرنا کہاں سے کیا گیا، یہ آئی ایس آئی کے ڈومین میں نہیں تھا، یہ جنرل فیض نے جواب دیا ہے اس کا ذکر ہے، اتنے بااثر شخص سے انہوں نے کیسے پوچھا؟ انہوں نے بات کی تو کمیشن نے فتویٰ سمجھ لیا، جنرل فیض کا ذکر بار بار کیوں کیا جارہا ہے؟ یہ تو بتاتے کہ یہ سب کچھ کرنے کا اختیار ان کے پاس تھا یا نہیں؟
لگتا ہے کہ دھرنا کمیشن کا واحد کام جنرل فیض حمید کو الزامات سے بری کرنا تھا، چیف جسٹس
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ میرے خیال سے جنرل فیض حمید نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق معاملات نہیں دیکھتی اور یہ کمیشن کی رپورٹ میں ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کمیشن نے جنرل فیض حمید کو بلایا یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لگتا یہ ہے کہ نہیں بلایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنے بڑے آدمی کو کیسے بلاتے؟ جنرل فیض حمید نے کہہ دیا اور کمیشن نے مان لیا، ان کو بلانے کی ہمت کیسے کرتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے کہ دھرنا کمیشن کا واحد کام جنرل فیض حمید کو الزامات سے بری کرنا تھا۔ کمیشن لکھ رہا ہے کہ آرمی ایک مقدس ادارہ ہے، تو کیا عدالت اور پارلیمنٹ کم مقدس ہیں؟ پوری قوم کی نظریں اس کمیشن پر لگی تھیں، اور یہ ان کی کارکردگی ہے۔ یہ ایک سیاسی دستاویز لگتی ہے جس کا مقصد کچھ لوگوں کو الزامات سے بری اور کچھ لوگوں کے ساتھ حساب برابر کرنا تھا۔
کمیشن لکھتا ہے کہ آرمی کو ان معاملات سے دور رکھنا چاہیے تو معاہدے پر دستخط کیوں کیے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ پورے پاکستان کو ٹھیک کرنے کے کام کمیشن نے بتا دیے ہیں لیکن جو کام ان کے ذمے تھا وہ نہیں کیا۔ آؤٹ دا آف وے جا کر اس جنٹلمین کو رپورٹ میں بری کیوں کیا جا رہا ہے؟ کمیشن لکھتا ہے کہ آرمی کو ان معاملات سے دور رکھنا چاہئے تو معاہدے پر دستخط کیوں کیے گئے۔ بے شک اجازت بھی ہو، کیا اجازت تحریری تھی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سیاست کرنی ہے تو اتر جائیں سیاست میں، ڈی جی سی نے کہہ دیا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق ان کا کام نہیں اور کمیشن نے مان لیا۔
وفاقی حکومت اس رپورٹ کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کہتا ہے کہ ہم ابصار عالم کے بیان پر یقین نہیں کرتے، کمیشن کہتا ہے کہ فیض حمید نے ابصار عالم کے الزامات کی تردید کی ہے۔ دونوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیتے اور دیکھ لیتے کہ کون سچ کہہ رہا ہے۔ کمیشن کہتا ہے کہ ابصار عالم نے اپنے بیان کو ثابت نہیں کیا، بڑی عجیب رپورٹ ہے۔ وفاقی حکومت اس رپورٹ کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں ہدایات لے کر بتا سکتا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں کمیشن کو نوٹس کر دیتا ہوں کہ آ کر بتائیں کہ وہ کیسے سنے بغیر فیصلہ دے سکتے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ابصار عالم کا بیان حلف پر لیا جبکہ جنرل فیض حمید کا بیان حلف پر کیوں نہیں لیا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کو پبلک کرنا یا نہ کرنا وفاقی حکومت کا کام ہے۔
کمیشن کو جو کام دیا وہ نہیں کیا باقی پورے پاکستان کو ٹھیک کرنے کی باتیں لکھ دیں، چیف جسٹس
کمیشن کو جو کام دیا وہ نہیں کیا باقی پورے پاکستان کو ٹھیک کرنے کی باتیں لکھ دیں۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ کمیشن نے لکھا ہے کہ پروموشن اسی کو ملے جس نے ہارڈ ایریا کیا ہو، یہ کس قسم کی بات ہے، ان کو کچے کے علاقے میں بھیجیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کے پاس تو بہت جدید اسلحہ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کمیشن والوں کو انکوائری کے لیے کوئی رقم بھی دی گئی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اصل رقم ابھی نہیں بتا سکتا مگر ان کو ادائیگی کی گئی ہے۔
آج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ
سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا تحریری حکمنامے میں کہا ہے کہ کمیشن نے 6 مارچ کو 149 صفحات اور 7 والیوم پر مشتمل رپورٹ جمع کرائی۔ ہماری رائے میں رپورٹ ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق نہیں۔ حیرانگی کی بات ہے کہ تحریک لبیک کے کسی رکن کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ کمیشن نے فرض کیا کہ احتجاج کے لیے اسلام آباد کا سفر آئین کے مطابق نہیں تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ کے حکمنامہ میں لکھا تھا پرامن احتجاج حق ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں صوبائیت کی جھلک نظر آتی ہے، حکمنامہ
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ میں صوبائیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ کمیشن نے ٹرمز اینڈ ریفرنس پر عملدرآمد نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی جانب سے جواب جمع کرائیں۔ وفاقی حکومت بتائے کہ اس رپورٹ کو پبلک کرنا چاہتی ہے کہ نہیں؟ اس آرڈر کی کاپی کمیشن کے ارکان کو بھجوائی جائے جو رپورٹ کے بارے میں ہماری رائے پر جواب دیں۔