قرون وسطیٰ میں برطانیہ میں کوڑھ کے پھیلاؤ کا کھرا معصوم گلہریوں تک جا پہنچا۔
مزید پڑھیں
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ قرون وسطی (5 سے 15 ویں صدی عیسوی کا زمانہ) کے زمانے میں کوڑھ کا مرض انسانوں کو گلہریوں سے لاحق ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
انہوں نے جنوبی انگلینڈ کے ونچسٹر میں آثار قدیمہ کے مقامات سے انسانی اور سرخ گلہری کی ہڈیوں کا مطالعہ کیا اور پایا کہ ان میں بیکٹیریا کے نشان ہیں جو اس بیماری کا سبب بنتے ہیں۔
جذام ایک دائمی بیماری ہے جو انسانوں کے درمیان پھیلتی ہے جو جلد، اعصاب اور میوکس جھلیوں پر حملہ کرتی ہے۔ گو برطانیہ میں 70 سالوں سے کوئی بھی اس بیماری میں مبتلا نہیں ہوا لیکن دنیا میں اب بھی لوگ اس سے متاثر ہوتے رہتے ہیں۔
ایک جانور آرماڈیلو (جسے بکتر بند اونٹ کہا جاتا ہے اور اس کی کھال سخت اور ہڈیوں کے ایک خول سے ڈھکی ہوتی ہے جو ذرہ بکتر کی مانند ٹکڑوں ميں نظر آتا ہے) اس میں مبتلا ہوتا ہے اور اس پربھی شبہ ہے کہ وہ اسے انسانوں تک منتقل ہے۔ برطانیہ میں کچھ جدید سرخ گلہریوں میں بھی یہ موجود ہے لیکن انسانوں میں منتقل ہونے کا کبھی کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا اور ماہرین کا کہنا ہے کہ خطرہ بہت کم ہے۔
یہ پہلی بار ہے کہ قرون وسطی کے کسی جانور کو اس بیماری کے میزبان کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔
مذکورہ تحقیق میں شامل اور لیسٹر یونیورسٹی کی ڈاکٹر سارہ انسکپ کا کہنا ہے کہ جدید گلہریوں میں جذام کا پتا لگانا حیران کن تھا اور پھر یہ ناقابل یقین ہے کہ ہم نے اسے قرون وسطیٰ میں پایا۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعی اس بیانیے کے خلاف ہے کہ یہ خاص طور پر ایک انسانی بیماری تھی۔
یہ واضح نہیں ہے کہ قرون وسطی کے زمانے میں گلہریوں نے انسانوں کو کوڑھ دیا تھا یا نہیں۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ بیکٹیریا کے مشترکہ تناؤ سے پتا چلتا ہے کہ یہ قرون وسطی میں لوگوں اور جانوروں کے درمیان اس طرح گردش کر رہا تھا جس کا پہلے پتا نہیں چلا تھا۔
اس وقت گلہری کی کھال کپڑوں کے لیے عمدہ استر کے طور پر استعمال ہوا کرتی تھی اور کچھ لوگوں کے پاس پالتو گلہریاں بھی ہوتی تھیں۔ گلہریاں خواتین میں بھی خاصے مقبول تھیں۔
انسانی اور گلہری کے نمونوں کا مطالعہ
محققین نے 25 انسانی اور 12 گلہری کے نمونوں کا مطالعہ کیا۔
انسانی باقیات جذام میں مبتلا افراد کے لیے اسپتال ونچسٹر لیپروسیریم سے آئی ہیں اور گلہری کی باقیات قریبی گڑھے سے ملی ہیں جو فریئرز )کھالوں کا کام کرنے والے) استعمال کرتے ہیں۔
پچھلے مطالعات سے پتا چلا ہے کہ جنوبی انگلینڈ کے ساحل سے دور اسکاٹ لینڈ اور براؤنسی جزیرے سے آنے والی جدید سرخ گلہریوں میں جذام ہوتا ہے۔
جذام انسانی تاریخ میں ریکارڈ شدہ قدیم ترین بیماریوں میں سے ایک ہے اور اب بھی ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا میں موجود ہے۔
یہ بالکل معلوم نہیں ہے کہ یہ لوگوں کے درمیان کیسے پھیلتا ہے لیکن ایسے متاثرہ سخص سے مہینوں پر محیط قریبی رابطہ جس کا علاج نہ ہوا ہو اس بیماری کی منتقلی کا باعث بن سکتا ہے۔
اس تحقیق کی سینیئر محقق اور سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی آف باسل کی پروفیسر ویرینا شنمن کا کہنا ہے کہ کوڑھ یا جذام کی تاریخ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جتنا کہ پہلے سوچا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس بیماری کی منتقلی اور پھیلاؤ میں جانوروں نے جو کردار ادا کیا ہے اس پر کوئی غور نہیں کیا گیا اور اس طرح جذام کی تاریخ کے بارے میں ہماری سمجھ اس وقت تک نامکمل رہے گی جب تک کہ ان جانوروں پر غور نہ کرلیا جائے جو اس بیماری کا شکار ہوکر اس کے پھیلاؤ کا باعث ہوسکتے ہیں۔
’جانوروں کا اس بیماری کے پھیلاؤ میں کتنا ہاتھ ہے واضح نہیں‘
لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اسٹیفن واکر نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض حالات میں جانور اپنا کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن کوڑھ کے عالمی لحاظ سے ان جانوروں کا کردار کتنا وسیع ہے اس کی وضاحت نہیں ہوسکی ہے اور اس کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔
ان کا خیال تھا کہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں دنیا میں اس بیماری کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اس قدیم بیماری کی منتقلی کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ابھی بہت کام کرنا ہے۔