جنرل ہیڈکوارٹرز راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کا کا کہنا تھا کہ 9 مئی صرف افواج پاکستان کا نہیں پوری عوام کا مقدمہ ہے، نظام انصاف پر یقین رکھنا ہے تو 9 مئی کے ملزموں کو سزا دینا ہوگی۔
مزید پڑھیں
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق 9 مئی کا واقعہ ہے کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں، عوام اور فوج نے تمام واقعات دیکھے ہیں، سب نے دیکھا کہ کس طرح لوگوں کی ذہن سازی کی گئی اور انہیں حملوں کے اہداف دیے گئے، چند گھنٹوں میں پورے ملک میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے۔
سانحہ 9 مئی
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے بعد عوام انتشاری ٹولے سے پیچھے ہٹ گئی، جھوٹ اور فریب مزید نہیں چل سکتا، جب سچ سامنے آگیا تو فالس فلیگ آپریشن کا دوسرا جھوٹ شروع کر دیا گیا، آپ لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بیوقوف بناسکتے ہیں ہمیشہ کے لیے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات سے عوام اور فوج میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، عوام کو بے وقوف سمجھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جوڈیشل کمیشن بنانے کا کہا جاتا ہے، جوڈیشل کمیشن اس معاملے پر بنتا ہے جہاں ابہام ہو، جوڈیشل کمیشن بنائیں اور واقعے کی تہہ تک جائیں۔
انہوں نے کہا کمیشن 2014 کے دھرنے اور پارلیمنٹ پر حملے کی بھی تحقیقات کرے کہ کیسے خیبر پختونخوا کے وسائل سے اسلام اباد پر دھاوا بولا گیا اور کس طرح آئی ایم ایف کو خط لکھے گئے، پی ٹی وی پر حملے کا بھی احاطہ کیا جائے کہ کس طرح لوگوں کو ریاست کے خلاف کھڑا کیا گیا، 2022 میں اسلام آباد پر دھاوا بولا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سیاسی انتشاری ٹولے کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عوام سے معافی مانگے، ایسی سیاسی انتشاری ٹولے کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی، آئین میں واضح ہے ملکی سلامتی پر وار نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح آئین پاکستان ریاست کے خلاف پروپیگنڈے کی اجازت نہیں دیتا۔
’افغان طالبان نے دوحہ معاہدے کی پاسداری نہیں کی‘
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سرزمین سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، افغان طالبان نے دوحہ معاہدے کی پاسداری نہیں کی، کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں، پاکستان نے افغانستان کو طالبان کی دہشتگردی کے ٹھوس شواہد پیش کیے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آرمی چیف ٹی ٹی پی سمیت کالعدم تنظیموں کے بارے میں واضح موقف رکھتے ہیں اور واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کو کالعدم تنظیموں سے خطرات ہیں، فوج کی اولین ترجیح ملک میں امن و امان کا قیام ہے، جس کے لیے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیار ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ غیر ملکی مقیم باشندوں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ ملکی مفاد میں کیا گیا، جس کے مطابق اب تک 5 لاکھ 63 ہزار سے زائد افغان باشندے واپس جا چکے ہیں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گرد امن خراب کرنے میں مصروف ہیں، سیکیورٹی فورسز نے بہادری سے مچھ میں حملہ ناکام بنایا۔
انہوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغان سرزمین استعمال کر کے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں، افواج پاکستان کی اولین ترجیح ملک میں قیام امن ہے، پاکستان نے کافی حد تک افغان مہاجرین کی مدد کی ہے، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی سرکوبی کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔
بلوچستان میں دہشت گردی
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج دہشت گردوں کی راہ میں آہنی دیوار ہے، 20 مارچ 2024 کو گوادر میں دہشت گردوں نے حملہ کیا، پاک فوج نے حملہ ناکام بناتے ہوئے 8 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، بشام حملے میں خود کش حملہ آور کا تعلق بھی افغانستان سے تھا۔
صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بشام میں دہشت گردی کا مقصد پاکستان کی معاشی ترقی کو نقصان پہنچانا تھا جس کی پوری منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی یہاں تک کے اس حملے میں استعمال ہونیوالی گاڑی بھی وہیں سے لائی گئی تھی۔
میجر جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق بشام حملے کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ جے آئی ٹی نے سرعت کے ساتھ اس واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی نشاندہی کی اور خود کش حملے میں ملوث چاروں دہشت گرد گرفتار کیے جاچکے ہیں، چینی باشندوں پر حملہ پاک چین دوستی کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔
پاک بھارت سرحد پر لاحق خطرات
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے ملک کو مشرقی سرحد پر خطرات لاحق ہیں، بھارت نے مختلف مقامات پر سیز فائر کی خلاف ورزی کی، بھارتی فوج ایل او سی پر نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے، جہاں نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دوسری جانب بھارتی حکومت بین الاقوامی جرائم میں بھی ملوث ہے، سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ سمیت کشمیری نوجوان غیر قانونی آپریشن میں شہید کیے جا رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کی حلقہ بندیوں میں رد و بدل کیا گیا، بھارت اندرونی انتشار سے توجہ ہٹانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہا ہے جس سے اعلیٰ عسکری قیادت آگاہ ہے۔
لاپتا افراد کا مسئلہ
لاپتا افراد کے مسئلے کو اہم اور پیچیدہ قرار دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونیوالے متعدد دہشت گرد لاپتا افراد میں شامل تھے، مسِنگ پرسنز کمیشن نے 7940 کے قریب مقدمات حل کیے ہیں، لاپتا افراد کا مسئلہ پوری دنیا میں ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں لاپتا افراد کی تعداد لاکھوں تک ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق لاپتا افراد سے متعلق بڑھا چڑھا کر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، لاپتا افراد کا معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ڈال دیا جاتا ہے، کیا یہ حقیقت نہیں کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی دہشت گرد موجود ہیں، پاکستان میں بہت سے لوگ غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر جاتے ہیں انہیں لاپتا افراد کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے۔
غیر قانونی مقیم افغانوں کا مسئلہ
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ جب سے حکومت اور سیکیورٹی اداروں نے مہم چلائی کہ ملک سے غیرقانونی افغانوں کو نکالا جائے تو اس کے بعد تقریباً 5 لاکھ 63 ہزار افراد پاکستان سے جا چکے ہیں، لیکن اب بھی لاکھوں کی تعداد میں افغان موجود ہیں، اور غیرقانونی افغان باشندے بھی اب تک ملک میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے روز جو کچھ ہوا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے، اس پر جوڈیشل کمیشن بنے گا یا نہیں، جوڈیشل کمیشن بنتا ہے تو اس کے ٹی او آرز کیا ہوں گے، کیا مینڈیٹ ہوگا تو یہ مفروضوں پر مبنی سوال ہے، باقی ممالک میں 9 مئی جیسے واقعات پر لمبا نہیں کھیلا جاتا۔ ملزمان سامنے ہیں، آئین و قانون کے مطابق کیسز چلا کر ان کے سزائیں دیں اور آگے بڑھیں۔
اگر 9 مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانا ہے تو اس چیز پر بنائیں کہ اس دن تک ہم کیوں پہنچے، یہ کام کیوں ہوا، یہ بڑا انوکھا واقعہ ہے، ایسا دنیا کے کس ملک میں ہوا، جن ملکوں کی ہم مثالیں دیتے ہیں، وہاں تو بڑی سختی سے نمٹا جاتا ہے۔ یہاں کیسے ہوگیا کہ آپ نے اپنے بانی کے گھر کو ہی جلا ڈالا، شہیدوں کے مجسموں کو جلا ڈالا، آپ جی ایچ کیو پر حملے کررہے ہیں اور فوجیوں پر پتھر مار رہے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 9 مئی کے پیچھے پوری کہانی ہے، اور جو کہانی ہے اس کو شہ دی گئی، اس کو وقت پر روکا نہیں گیا۔ یہ سانحہ سب کے سامنے ہوا۔ اب کہا جارہا ہے کہ اس پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے کہ اس سانحے کے پیچھے کون تھا۔ اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر جوڈیشل کمیشن بنانا ہے تو پیچھے جاکر دیکھیں کہ یہ برائی یہاں تک کیسے پہنچی؟
مولانا فضل الرحمان کے بارے میں سوال پر کیا کہا؟
مولانا فضل الرحمان باربار کہہ رہے ہیں کہ جے یو آئی کو انتخابات میں دیوار کے ساتھ لگایا گیا اور اسٹیبلشمنٹ نے ان کو پارلیمان سے باہر رکھا ہے، مولانا کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف چارج شیٹ کس حد تک درست ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 8 فروری کے انتخابات میں فوج کا کردار صرف سیکیورٹی کا تھا، اس سے زیادہ فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، جو لوگ فوج پر انتخابات میں مداخلت کا الزام لگاتے ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ ثبوت پیش کریں۔
کچھ سیاسی حلقے تواتر کے ساتھ اداروں پر الزامات لگارہے ہیں
ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال پوچھا گیا کہ پاکستان میں گزشتہ 3، 4 ماہ سے ایکس پر پابندی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ ہے، تو اس پر آپ کی کیا رائے ہے، جس پر انہوں نے کہا کہ میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا پر کچھ سیاسی حلقے تواتر کے ساتھ اداروں پر الزامات لگارہے ہیں، اور ان الزامات کے جواب میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی ثبوت دیا جائے تو وہ ثبوت دینے کے بجائے مزید الزامات لگانا شروع کردیتے ہیں، اب ایسی صورتحال پر اگر ادارہ بھی الزامات لگانا شروع کردے تو کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ادارہ حقائق پر یقین رکھتا ہے اور ادارے کو یہ یقین ہے کہ جو سچائی ہوتی ہے وہ ہمیشہ جھوٹ پر غالب رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئین کی بات کی جائے بلاشبہ آرٹیکل 19 اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ کی بات کرتا ہے مگر یہ آرٹیکل یہ بھی بہت واضح انداز میں کہتا ہے کہ اس آزادی کے پیچھے چھپ کر پاکستان کی سالمیت، سیکیورٹی اور دفاع پر حملہ نہیں کیا جاسکتا، نہ دوست ممالک کے ساتھ روابط کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور نہ ہی قوم کی اخلاقیات کو تباہ کیا جاسکتا ہے۔
ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولے جاتے ہیں
ڈی جی آئی ایس پی آر سے پوچھا گیا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی کا بیانیہ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات نے 9 مئی کے واقعات کے الزامات کو مکمل مسترد کر دیا ہے، اب 9 مئی پر کوئی مقدمہ یا کمیشن نہیں بننا چاہیے؟ جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ایک جھوٹ چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولے جاتے ہیں۔
یہ بیانیہ کہ 8 فروری کے انتخابات میں 9 مئی کہیں غائب ہو گیا، ختم ہو گیا، ہماری طاقت سچائی ہے اور سچائی یہ ہے کہ 8 فروری کو انتخابات کا ٹرن آؤٹ 47 فیصد تھا، 6 کروڑ اور چند لاکھ لوگوں نے اس روز حق رائے دہی کا استعمال کیا، اب میں اس جماعت جو مکمل جماعت بھی نہیں ہے ان کے لیڈرز کو کہتا ہوں کہ اس کے لیڈروں کو کل 18 لاکھ ووٹ پڑے جو کل ووٹوں کا 31 فیصد بنتا ہے۔
ہمیں اکثریت کی رائے ہی ماننی چاہیے
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دیگر 70، 75 فیصد ووٹ جو پڑا وہ تو اس بیانیے کو لوگوں نے ووٹ نہیں دیے، تو ہم جمہوریت میں رہتے ہیں تو پھر ہمیں اکثریت کی رائے ہی ماننی چاہیے۔ اگر ان کے ووٹوں کا آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو کل 7 فیصد ووٹ بنتا ہے۔ اسی طرح ملک کی 92، 93 فیصد آبادی تو اس بیانیے کے ساتھ نہیں کھڑی ہوئی۔
قوم اپنے شہدا کی تضحیک کسی قیمت برداشت نہیں کر سکتی
انہوں نے کہا کہ اس میں بھی اگر تجزیہ کیا جائے تو جو 18 ملین لوگوں نے انہیں ووٹ دیے بھی تو انہوں نے کیا اس بیانیے پر ووٹ دیے کہ 9 مئی کے واقعات درست ہیں؟، شہیدوں کی تضحیک ہونی چاہیے؟، ایسا بالکل نہیں ہے کیوں پاکستانی قوم اپنے شہدا کی تضحیک کسی قیمت برداشت نہیں کر سکتی۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستانی قوم پاک فوج اور ملک کے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے، ایسا بالکل نہیں ہے کہ جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیے ہیں وہ لوگ فوج کے خلاف ہیں۔ اس لیے نہ اس بیانیے کے پیچھے لوگ ہیں اور نہ ہی کوئی سوچ ہے۔
پاک فوج حق اور سچ کے ساتھ کھڑی رہے گی
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ملک میں سروے ہوتے رہتے ہیں لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا سب سے با اعتماد ادارہ کون سا ہے تو یقیناً ان میں رائے پاک فوج کے بارے میں ہی ہوتی ہے۔ ابھی فروری میں ایک سروے ہوا جس میں 74 فیصد عوام نے یہی کہا کہ ہمیں سب سے زیادہ اعتماد پاک فوج پر ہے۔ یہ بیانیے بنائے جاتے ہیں، پروپیگنڈے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن پاک فوج حق اور سچ کے ساتھ کھڑی رہے گی۔
کسی انتشاری ٹولے کے ساتھ بات چیت بھی نہیں ہو گی
سیاسی جماعت کے ساتھ ڈیل کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج میں تمام قومیت کے لوگ ہوتے ہیں اور اس کی کسی قسم کی کوئی ذاتی سوچ نہیں ہوتی، تاہم ہر حکومت وقت کے ساتھ پاک فوج کا غیر سیاسی مگر آئینی و قانونی تعلق ہوتا ہے، ہمارے لیے تمام لیڈر اسی پیرائے میں قابل احترام ہیں لیکن کوئی انتشاری ٹولہ جو اسی پاک فوج کی تضحیک کرے، شہدا کی تضحیک کرے اور منفی پروپیگنڈا کرے، ایسے کسی انتشاری ٹولے کے ساتھ ڈیل تو دور، بات چیت بھی نہیں ہو گی، اس کے لیے صرف ایک ہی قابل عمل بات ہے کہ وہ صدق دل سے قوم سے معافی مانگے اور وعدہ کرے کہ وہ منفی اور نفرت کی سیاست چھوڑ کر تعمیری سیاست کرے گی۔
آزادی اظہار رائے کی آڑ میں دوست ممالک کے خلاف بات کرنا قابل قبول نہیں
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ کون لوگ تھے جو سوشل میڈیا پر ملکی اداروں کے خلاف نفرت پھیلا رہے تھے، ملک کا آئین بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ سوشل میڈیا پر آزادی اظہار رائے کی آڑ میں دوست ممالک کے خلاف پروپیگنڈا کریں، یہ ایک مذموم سیاسی سوچ ہے جو ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
ایسی سوچ جو سعودی عرب جیسے ہمارے انتہائی عزیز اور برادر دوست ملک ہے، جس سے ہمارا انتہائی محبت، مذہب کا جذباتی لگاؤ ہے، کو بدنام کرے تو پھر ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کی ملک کے خلاف کوئی حد باقی نہیں رہی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آئین اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ آزادی اظہار رائے کے پیچھے چھپ کر دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کریں، یہ وہ مذموم مقاصد ہیں کہ ہم نہیں تو کچھ نہیں، یہ وہی سوچ ہے جو چاہتی ہے کہ ملک معاشی طور پر ترقی نہ کرے اور جب دوست ممالک خاص طور پر سعودی عرب سے متعلق ایسی بات کی جائے تو اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے لیے کوئی حد نہیں، انتہائی افسوس ناک ہے۔