عالمی ادارہ صحت کے زیرِ اہتمام پاکستان سمیت دنیا بھر میں بدھ کو’ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے منایا گیا جس کا مقصد تھیلیسیمیا جیسی موروثی بیماری کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا اور اس کی روک تھام کے لیے مناسب اور ٹھوس اقدامات کرنا تھا۔
مزید پڑھیں
اے پی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے کے موقع پر سرکاری و غیر سرکاری، نجی اور طبی اداروں کے زیر اہتمام مختلف پروگرامز اور تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق تھیلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے جو نسل در نسل اولاد کے ذریعے سے منتقل ہوتا ہے اور عام طور پر اس مرض کی تشخیص بچوں میں دوران حمل یا پیدائش کے بعد ہوتی ہے۔
یہ والدین سے جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ بیماری مریض سے انتقال خون، ہوا، پانی، جسمانی یا جنسی تعلق سے منتقل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی یہ کوئی خوراک کی کمی یا طبی بیماری ہے۔ اگر ماں باپ میں سے کسی ایک کو تھیلیسیمیا مائنرہو تو بچے کو بھی مائنر تھیلیسیمیا ہی ہوگا۔ اگر ماں باپ دونوں تھیلیسیمیا مائنر ہوں تو ان کے ملاپ سے پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوگا۔
ہونے والے بچوں کو کس طرح تھیلیسیما سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے؟
موروثی مرض سے متعلق عدم آگاہی کی وجہ سے اس مرض کے پھیلنے کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
شادی سے پہلے لڑکا لڑکی دونوں کا تھیلیسیمیا کیرئیر ٹیسٹ ہونا ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو اس موروثی مرض سے محفوظ بنایا جاسکے بلکہ نکاح نامے سمیت قومی شناختی کارڈ پر بھی تھیلیسیمیا ٹیسٹ کا اندراج کیا جانا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں میں یہ بیماری منتقل نہ ہوسکے۔
بدقسمتی سے دنیا بھر میں بہت سے ممالک تھیلیسیمیا کو شکست دے کر اپنے ملک میں اس کا خاتمہ کر چکے ہیں لیکن بعض ترقی پذیر ممالک میں آج بھی اس پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
پاکستان میں تھیلیسیمیا پر قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ایران، مالدیپ، قبرص وغیرہ میں مناسب قانون سازی کے ذریعے ہی تھیلیسیمیا کا تدارک ممکن ہوا۔
آگاہی مہم وقت کی ضرورت
پاکستان میں بھی نہایت ضروری ہے کہ تھیلیسیمیا کے مضمون کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
علاوہ ازیں اخبارات میں مضامین شائع کیے جائیں، اس سے آگاہی کے لیے ٹی وی اور ریڈیو پر پروگرام اور اشتہارات بنا کر چلائے جائیں اور موبائل فون کال کے دوران عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔
مزید برآں سماجی کارکنوں اور فلاحی تنظیموں کو اس مقصد کے متحرک کیا جائے جبکہ حکومتی سطح پر اس بڑے مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھا جانا چاہیے اور اس بچاؤ کے لیے کوئی مناسب منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔
صحت کے ماہرین نے نوجوانوں، طلبہ، عام شہریوں اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے طبقات سے اپیل کی ہے کہ وہ تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنے خون کا عطیہ لازمی دیں کویں کہ ان کے عطیے سے کسی معصوم بچے کو زندگی کا تحفہ مل سکتا ہے۔
عالمی یوم دمہ: لاہور میں ’بہتر سانس بہترین زندگی‘ واک
لاہور کے پرنسپل امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر محمد الفرید ظفر نے کہا ہے کہ تمباکو نوشی، فضائی آلودگی اور مختلف قسم کی الرجیز امراض تنفس (دمہ) کے مرض کی وجوہات ہیں گو یہ متعدی نہیں لیکن اس میں گھر کے ایک سے زائد افراد مبتلا ہوسکتے ہیں۔
نے لاہور جنرل اسپتال شعبہ پلمونالوجی کے زیر اہتمام عالمی یوم تنفس کی مناسبت سے منعقدہ آگاہی واک کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمد الفرید ظفر نے کہا کہ بہت سے لوگ موسم بہار میں پولن الرجی کے باعث سانس کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ افراد دمے کے مریض ہیں اور اس مرض سے بچاؤ کے بارے میں عوامی شعور کی بیداری وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ لوگ سگریٹ نوشی ترک کر نے کے علاوہ فضائی آلودگی کا باعث بننے والے محرکات کو کنٹرول کر کے دمہ اور نظام تنفس کی بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔
اس موقع پر مریضوں و لواحقین میں دمہ سے بچا کے متعلق پمفلٹ تقسیم کیے گئے۔
اس موقعے پر ڈاکٹر جاوید مگسی نے کہا کہ دمے کی تشخیص کرتے وقت، مریض کی طبی تاریخ پر غور کرنا، پھیپھڑوں کے باقاعدہ ٹیسٹ، بار بار کھانسی، گھرگھراہٹ اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ دمے کے مریض کو چاہیے کے انہیلرز ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں تاکہ دمے کے دورے کی صورت میں فوری طور پر استعمال کیا جا سکے اور دمہ کے مریض اپنے معالجین سے رابطے میں رہا کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمروں کے اندر سگریٹ نوشی نہ کریں بلکہ اسے مکمل طور پر ترک کر دیں۔
واک میں ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر جاوید مگسی، ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین، ڈاکٹر عبدالعزیز اور ہیلتھ پروفیشنلز بڑی تعداد نے شرکت کی۔