مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اکیس اکتوبر2023 میں لندن سے پاکستان واپس آئے اور لاہور میں ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو رد کرتے ہوئے مفاہمت کی پالیسی اپنانے کو ترجیح دی۔
ن لیگ کو مفاہمت کا بیانیہ لے ڈوبا
مزید پڑھیں
8 فروری کو انتخابات ہوگئے مگر نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے انکی جماعت کو خاص ووٹ نہیں ملے جس پر سوشل میڈیا اور الیکڑوانک میڈیا پر یہ بات بار بار دہرائی گئی کہ ن لیگ کو مفاہمت کا بیانیہ لے ڈوبا، عوام میں جو نواز شریف کی پذیرائی تھی وہ عمران خان نے اپنے بیانیے کی وجہ سے لے لی ہے۔
نواز شریف ن لیگ کے صدر اور خواجہ سعد رفیق سیکرٹری جنرل
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی ہونے کے باوجود نواز شریف وزیر اعظم کی کرسی پر نہ بیٹھ سکے، لیکن اب وہ دوبارہ پارٹی صدرات کی کرسی پر بیٹھنے جارہے ہیں۔ 28مئی کو یوم تکبیر کو ن لیگ کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوگا، جس میں نواز شریف کو پارٹی صدر اور خواجہ سعد رفیق کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنایا جائے گا۔
مسلم لیگ ن کے اندر پریشان کن صورت حال ہے
نوازشریف کے دوبارہ پارٹی صدر بنے پر ایک دفعہ پھر کہا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کا بیانیہ بدلیں گے، سینیئر تجزیہ نگار اور نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے صحافی سلمان غنی کا وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس وقت مسلم لیگ ن کے اندر پریشان کن صورت حال ہے، نواز شریف بھی عدم اطیمنان سے دوچار ہیں۔ دوسرا وہ اپنے بھائی کے ہاتھوں مجبور بھی ہیں، لیکن وہ اپنی ایک نئی پولیٹکل لائن لینا چاہتے ہیں اس حوالے سے نواز شریف نے اپنے ہم خیال گروپ کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع کر رکھا ہے۔
نوازشریف کا موڈ اور ذہین بالکل بدل چکا ہے
سلمان غنی کا کہنا ہے کہ جس بیانیے پر 8فروری کا الیکشن لڑا گیا نواز شریف اس بیانیے کو اب آگے لیکر چلنے والے نہیں، ان کا موڈ اور ذہین بالکل بدل چکا ہے، پارٹی صدر بنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ آپ نواز شریف کو ایک نئے روپ میں دیکھیں گے۔
سینیئر صحافی سلمان غنی کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اس طرح کا بیانیہ بنا پائیں گے جو سب کے لیے قابل عمل بھی ہو اور انکی مرکز اور پنجاب کی حکومتیں بھی قائم رہے جائے۔ میرے خیال میں یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا، اگر نواز شریف مفاہمتی بیانیے سے پیچھے ہٹتے ہیں تو ان کی پارٹی کے لیے مشکلات بھی کھڑی ہو سکتی ہیں۔
پی ڈی ایم فارمولا نہیں چلے گا
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی سلمان غنی کا کہنا تھا کہ سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف جس طرح ایک نئی پولیٹکل لائن اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں، اس نئی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کا کوئی حل بھی ان کے پاس موجود ہے یا نہیں۔ اگر نواز شریف اپنے بیانیے کے ساتھ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کا کوئی حل بھی رکھتے ہیں تو یقیناً ان کو پاکستان میں پذیرائی ملے گئی۔ پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومتیں ہیں نواز شریف کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے عوام کو ریلیف دلانا ہوگا تب ہی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
سلمان غنی کے مطابق اگر مسلم لیگ ن کی حکومت ڈلیور بھی نہیں کرتی اور ایک نیا بیانیہ بھی بناتی ہے تو اس سے مسلم لیگ ن کو نقصان ہوگا، پہلے بھی پی ڈی ایم کی شکل میں مسلم لیگ ن کو نقصان ہوا ہے اور آنے والے وقت میں بھی پی ڈی ایم کی شکل میں بنے والی حکومت سے ن لیگ کو نقصان ہوگا۔
نوازشریف کے اندر اس وقت بے چینی ہے
ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف کے اندر اس وقت بے چینی ہے 2سال پہلے تک نواز شریف کے نام کی ٹکٹ بکتی تھی مگر اب صورتحال مختلف ہے، نواز شریف کو بھی اس بات کا ادراک ہے، کہنے کو تو پنجاب اور مرکز میں ان کی حکومت ہے مگر وہ ڈلیور نہیں کر پا رہیں، جس کی وجہ سے وہ مختلف میٹنگیز کر رہے ہیں۔گندم اسیکنڈل پر نواز شریف چاہتے ہیں جو بھی ملوث ہے اس کو سزا ملنی چاہیے، کسانوں کا مسلہ حل ہونا چاہیے۔