چند روز قبل لاہور میں ایک ٹارگٹ کلر نے پولیس کو اپنے نشانے پرلیا اور جہاں بھی کوئی پولیس والا اکیلا نظر آتا اس پر گولی چلادیتا۔ اس ٹارگٹ کلر نے سب سے پہلے ایک پولیس اہکار کو ڈی ایچ میں قتل کیا۔ پولیس نے اس واقعہ کا اتنا نوٹس نہیں لیا اور اسے ذاتی دشمنی کا کیس سمجھا۔ مگر جب اے ایس آئی شاد باغ کو دن کی روشنی میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا تو پولیس کے اہکار حرکت میں آگئے۔
مزید پڑھیں
پولیس ذرائع کے مطابق، ٹارگٹ کلر نے جب ڈی ایچ اے میں پولیس اہکار کو مارا تو اس نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا جبکہ اس کی موٹرسائیکل بغیر نمبر پلیٹ کے تھی۔ ذرائع کا کہنا تھا لاہور سیف سٹی کے 70 فیصد کیمرے خراب ہیں تاہم ہمیں ایک کیمرے پر وہ ٹارگٹ کلر نظر آیا مگر اس کی تصویر دھندلی ملی۔
پولیس ذرائع نے مزید بتایا کہ اس کیس پر ابھی چھان بین چل رہی تھی کہ تھانہ شاد باغ کے اے ایس آئی کو قتل کردیا گیا، جس کے بعد ہمارے افسران حرکت میں آئے اور تفتیش کو دوسرے اینگل سے دیکھنے لگے مگر یہاں بھی سیف سٹی کیمرے خراب ہونے کی وجہ سے ہمیں قاتل کی نقل و حرکت کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔
2 واقعات، ایک پستول
پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے اس بات کی تصدیق ہوچکی تھی کہ مذکورہ پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کے دونوں واقعات میں ملزم نے ایک ہی پستول کا استعمال کیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ ابھی ان دونوں کیسز کی تحقیقات جاری تھیں کہ ٹارگٹ کلر نے تیسرے پولیس اہکار کو قتل کردیا۔ اس تیسرے واقعہ میں ٹارگٹ کلر نے ایک کانسٹیبل کو ٹکسلالی کے علاقے میں اس وقت ٹارگٹ کیا جب وہ ایک پان شاپ سے کچھ خرید رہا تھا۔
پولیس کے مطابق، ٹارگٹ کلر پہلے اس کانسٹیبل کو دیکھتا رہا کہ یہ پان شاپ سے نکلے تو اسے گولی مارے، مگر جب وہ کچھ دیر وہاں رکا رہا تو ٹارگٹ کلر نے پان شاپ پر ہی اسے گولی مار کر قتل کردیا۔ ٹارگٹ کلر نے اس مرتبہ بھی وہی پستول استعمال کی اور خوش قسمتی سے وہاں سیف سٹی کا ایک کیمرہ کام کررہا تھا۔
سیف سٹی کیمرے کی ویڈیو میں پولیس نے دیکھا کہ وہ ٹارگٹ کلر اس کیمرے کو دیکھتا ہے، اس نے کالے رنگ کا ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور جس موٹرسائیکل پر سوار تھا وہ بھی کسی سے چھینی ہوئی تھی۔ پولیس کو جب اس کی ایک واضح تصویر ملی تو شہر بھر کے کیمرے چیک کیے گئے کہ یہ شخص کہاں سے نکلا اور کہاں کہاں گیا۔
’فوٹیجز کی مدد سے ملزم کا سراغ لگایا‘
پولیس ذرائع نے بتایا کہ سیف سٹی کے بیشتر کیمرے خراب ہیں لیکن ان کیمروں میں اگر کوئی شخص آجائے تو ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک کلک سے اس کا پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ شخص پہلے کس علاقے میں لگے کیمرے کی زد میں آیا تھا۔ اس معاملے میں بھی پولیس فوٹیجز کی مدد سے ٹارگٹ کلر کے گھر تک پہنچ گئی جو ڈی ایچ اے میں ایک کرائے کے گھر میں رہتا تھا۔
پولیس ٹارگٹ کلر کو پکڑنے پہنچی تو ملزم سو رہا تھا۔ ملزم نے اپنی آخری واردات میں جو شارٹس پہنی ہوئی تھی۔ ملزم نے اس کو کاٹ دیا تھا اور اس کے ٹکڑے کمرے میں ایک جانب رکھے ہوئے تھے۔ ملزم کا مقصد انہیں جلا کر ثبوت مٹانا تھا۔ تاہم پولیس اس سے پہلے ہی ملزم تک پہنچ چکی تھی۔ ملزم کے گھر سے اس کا ہیلمٹ اور دستانے بھی برآمد کیے گئے۔
’مجھے پولیس والوں پر غصہ تھا‘
پولیس ذرائع کے مطابق، ملزم کو جب گرفتار کیا گیا تو اس نے اپنی شناخت فیضان بٹ کے نام سے کرائی۔ دوران تفتیش ملزم نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل پولیس نے اسے دھماکا خیز مواد کے غلط مقدمے میں پھنسایا تھا جس کا اسے شدید رنج تھا اور وہ اپنا غصہ پولیس اہکاروں کو قتل کرکے نکال رہا تھا۔
ملزم نے یہ اعتراف بھی کیا کہ جب وہ جیل میں تھا تو اس کی ملاقات کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے رؤف گجر سے ہوئی اور دونوں میں دوستی بھی ہوگئی۔ رؤف گجر نے ملزم کو 6 لاکھ روپے رشوت دے کر اس کی ضمانت کروائی اور اسے اپنے ساتھ افغانستان کے شہر خراسان لے گیا جہاں پر اس کی ملاقات تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشتگردوں سے ہوئی۔
ٹی ٹی پی نے ملزم فیضان بٹ کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے لیے ایک اسائنمنٹ دی اور اسے کہا کہ کام ہونے پر اسے مکمل سپورٹ کیا جائے گا۔ ٹی ٹی پی نے فیضان بٹ کو 10 پولیس افسران کو قتل کرنے کا ٹارگٹ دیا جو ملزم نے بخوشی قبول کرلیا کیونکہ اسے پہلے ہی پولیس والوں پر غصہ تھا۔ دوران تفتیش ملزم نے بتایا کہ جب وہ کسی پولیس اہکار کو قتل کرتا تھا تو وہ اس کی پوری ویڈیو بناتا تھا۔ اس مقصد کے لیے کیمرہ اسکے ہیلمٹ پر نصب تھا۔
’ویڈیوز افغانستان بجھواتا تھا‘
پولیس ذرائع کے مطابق، ملزم فیضان بٹ نے بتایا کہ اس نے تینوں پولیس اہلکاروں کے قتل کی ویڈیوز بنائیں اور افغانستان بجھوائیں جس پر اسے سراہا گیا۔ ملزم فیضان بٹ نے اعتراف کیا کہ اس نے ایک ہفتے میں 5 پولیس اہلکاروں پر گولیاں چلائیں، جن میں سے 3 پولیس اہکار موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ 2 اہلکار ابھی انہتائی نگہداشت وراڈ میں زیر علاج ہیں۔
ملزم فیضان بٹ نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان جانے سے قبل اس نے انڈیا کی خفیہ ایجنسی را سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ اس کے ساتھ مل کر کام کرسکے۔ ملزم نے بتایا کہ اس نے را کو متعدد ای میلز کیں مگر ان کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا، جس کے بعد اس نے افغانستان جانے کا منصوبہ بنایا۔